Headlines
Loading...
Gumbade AalaHazrat

سوال
  کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع اگر زید بکر سے 1000روپے لےگیا کہ میں کوئی روزگار کروں گا اس میں جو نفع ہوگا میں اس سے آپ کو بھی کچھ دوں گا تو بکر کا یہ پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی؟ المستفی محمد ارشد رضا قادری

       جواب

اگر کسی نے کسی دوسرے شخص سے 1000 روپیہ یا جتنی بھی رقم ہو بطور قرض لی ہے تو جتنی رقم لی اتنی لوٹانا ضروری ہے اس پر زیادتی کی شرط لگا کر لینا سود ہے اور سود کو اللہ رب العزت نے حرام فرمایا
کما قال اللہ تعالی احل اللہ البیع وحرم الربا (القرآن) ہاں اگر یہ رقم بطور مضاربہ یعنی نفع میں شرکت پر بایں طور لی گئ کہ مال تمہارا اور کام میرا تو یہ بین الشریکین جائز ہے اس کو یوں سمجھۓ کہ دو شریکوں میں سے ایک مال لگانے اور دوسرا اس مال ذریعہ کام کرکے منافع کی تقسیم پر راضی ہو گۓ اب منافع میں ان کی آپس مین جیسی بھی شرکت رہی ہو آدھے آدھے یا دو تہائی یا چوتھائی پر؛ مگر اس میں بھی یہ شرط ہے کہ نفع دونوں کے درمیان عام ہو ان میں سے کسی ایک کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ نفع میں سے کچھ متعین دراہم نکال لے بعدہ اس نفع کو آپس میں تقسیم کرے اور یہ بھی ضروری ہے کہ مال مضارَب کے سپرد کردیا جائے اس میں مضارِب یعنی رب المال کا کسی طرح کا کوئی قبضہ نہ ہو
جیسا کہ قدوری شریف میں ہے المضاربۃ عقد علی الشرکۃ فی الربح بمال من احد الشریکین و عمل من الآخر و من شرطھا( المضاربۃ) ان یکون الربح بینھما مشاعا لا یستحق احدھما منہ دراھم مسماۃ و لا بد ان یکون المال مسلما الی المضارَب و لا ید لرب المال فیہ قدوری شریف ص ۹۸ مطبوعہ مجلس البرکات لہذا بکر کا زید سے اس صورت میں کہ جب کہ زید نے بکر سے روپیہ بطور قرض لیا تھا تو زیادتی لینا حرام ہے اور اگر بطور مضاربہ لیا تھا تو بین الشریکین عقد مضاربہ جائز و درست ہے واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

ابو عبداللہ محمد ساجد چشتی شاہ جہاں پوری

خادم مدرسہ دارارقم محمدیہ میر گنج بریلی شریف

1 تبصرہ

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ