Headlines
Loading...
کیا استاد اپنی شاگردہ سے نکاح کر سکتا ہے

کیا استاد اپنی شاگردہ سے نکاح کر سکتا ہے

Gumbade AalaHazrat

سوال
  میرا سوال یہ ہے کہ استاذ اپنی شاگردہ یعنی اپنی پڑھائی ہوئی اسٹوڈنٹ سے شادی کر سکتا ہے یا نہیں۔ اگر اسے کوئی حرام سمجھے تو۔ برائے مہربانی جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی آپ کی المستفی حافظ محمد آفاق احمد

       جواب

استاذ کو اپنے شاگردہ سے نکاح کرنا مطلقا حلال ہے اسے ممنوع جاننا کتاب وسنت اجماع امت وقیاس چاروں دلائل شرع سے محض باطل وبے اصل ہے۔قرآن عظیم سے یوں کہ مولٰی عزوجل نے حرام عورتیں گنا کر فرمایا و احل لکم ماوراء ذٰلکم ان کے سوا سب عورتیں تمھارے لیے حلال ہیں۔ استاذی وشاگردی بھی تو مثل رشتہ پیری ومریدی ہے۔ پیر واستاذ دونوں بجائے باپ کے مانے جاتے ہیں، خود حدیث میں فرمایا انما انالکم بمنزلۃ الوالد اعلمکم ۱؎ ۔ رواہ احمد وابوداؤد والنسائی وابن حبان عن ابی ھریرۃ رضیﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلیﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ میں تمھارے لیے بمنزلہ والد ہوں تمھیں تعلیم دیتاہوں، اس کو احمد،ابوداؤد، نسائی اور ابن حبان نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بذریعہ ابوھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کیا ہے۔ بلکہ پیری ومریدی بھی خود استاذی وشاگردی ہے ۔ اگر یہ خیال باطل ٹھیک ہوتا تو اپنی شاگرد عورت سے بھی نکاح حرام ہوتا اور عورت کو علم سکھانا نکاح جاتے رہنے کا باعث ہوتا کہ اب وہ اس کی بیٹی ہوگئی حالانکہ قرآن و حدیث سے زوجہ کو شاگرد کرنا اور اپنی شاگرد عورت کو نکاح میں لانا دونوں باتیں ثابت
قال اللہ تعالٰی یاایھاالذین اٰمنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا ۲؎ اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھروالوں کودوزخ سے بچاؤ۔(۲؎ القرآن ۶۶/۶) ظاہر ہے کہ گھر والوں کو دوزخ سے بچانا بغیر مسائل سکھا ئے متصور نہیں کہ بچنا بے عمل اور عمل بے علم میسر نہیں، تو قرآن مجید صاف حکم فرماتا ہے کہ اپنی عورتوں کو علم دین سکھاؤ اورا س پر عمل کی ہدایت کرو
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں رجل کانت لہ امۃ فغذاھا فاحسن غذاء ھا ثم ادبھا فاحسن تادیبھا وعلمھا فاحسن تعلیمھا ثم اعتقھا وتزوجھا فلہ اجران ۳؎۔ رواہ الائمۃ احمد والبخاری ومسلم والترمذی والنسائی وابن ماجۃ عن ابی موسی الاشعری رضیﷲ تعالٰی عنہ یعنی جوکوئی کنیز رکھتا ہے اسے کھلائے اور اچھا کھلائے پھر ادب سکھائے اور بہتر سکھائے اور علم پڑھائے اور خوب پڑھائے، پھر اسے آزاد کرکے اپنے نکاح میں لائے وہ شخص دوہرا ثواب پائے ( اس کو احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا (حوالہ فتاوی رضویہ شریف ج۱۱ ص ۳۲۶ تا ۲۷ رضا فاؤنڈیشن لاہور) صورت مسئولہ میں استاد اپنے شاگردہ سے نکاح کر سکتا ہے۔ لیکن دور حاضر میں علماء کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔اگر وہ کرنا چاہے تو پہلے معتبر لوگوں کے ذریعے پیغام بھیج دیں۔ اسلئے کہ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ پڑھاتے ہیں اور عشق وغیرہ کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ پھر اس سے شادی کر لیتے ہیں جس سے لوگ بدظن ہو جاتے ہیں لوگوں کو بدگمانی ہوتی ہے اور مومن کو بدگمانی میں پڑنے سے بچانا چاہئے۔ فتنہ فساد پھیلانے سے بھی بچنا اور بچانا چاہئے۔ اور جو لوگ حرام سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہے جب تک کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہو جائے اس وقت تک کسی کو بتانا جائز نہیں۔اگر کسی کو بتایا ہے کہ تو توبہ کریں اور آئیندہ اس سے احتراز کرے۔ حدیث پاک میں ہے : " جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں (اَلْجامِعُ الصَّغِیر ص۵۱۷ حدیث ۸۴۹۱) واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ فقیر محمد اشفاق عطاری

مقام نیپال 06/01/2022

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ