سوال
محترم!
مجھے یہ پوچھنا ہے کہ مسجد نبوی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ پر پہلے کیا تھا؟
میں سنی ہوں کہ وہ 2 یتیموں کی ملکیت کی تھی پر اب کسی گروپ میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ پر مشرکوں کا قبرستان تھا۔۔۔ صحیح بات کیا ہے؟ آپ وضاحت فرمادیں عین نوازش ہوگی
المستفی محمد عبدالمجید دنیاپور
جواب
مسجد نبوی شریف جس جگہ ہے وہ زمین بنو نجار قبیلے کی تھی جسے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دس دینار میں خریدیں اور یہ قیمت خلیفۃ اول یار غار مصطفیٰ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مال سے ادا کی گئی
وہاں تعمیر مسجد سے پہلے کھجور کے درخت،بنجر زمین اور مشرکین کی قبریں تھیں جو سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے اکھاڑ دی گئیں درخت کاٹ دئیے گئے اور پوری زمین ہموار کی گئی پھر بموجب فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اینٹ بنائ گئی اور پھر مسجد مبارک کی تعمیر ہوئی
چنانچہ بخاری شریف میں سیدنا حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی فرماتے ہیں
وانہ امر ببناء المسجدفارسل الی ملا من بنی النجار فقال یا بنی النجار" ثامنونی بحائطکم ھذا"قالوا لا واللہ لا نطلب ثمنہ الا الی اللہ فقال انس فکان فیہ ما اقول لکم قبور المشرکین وفیہ خرب وفیہ نخل فامر النبی صلی اللہ علیہ وسلم بقبور المشرکین فنشت ثم بالخرب فسویت وبالنخل فقطع فصفوا النخل قبلۃ المسجد وجعلوا عضادتیہ الحجارۃ وجعلوا ینقلون الصخر وھم یرتحزون والنبی صلی اللہ علیہ وسلم معھم وھو یقول اللہم لا خیر الا خیر الآخرۃ فاغفر للانصار والمھاجرۃ
(ج ۱ص٨٠حدیث نمبر ٤٢٨)
اور المواہب اللدنیہ میں ہے
جب آپ نے مسجد شریف بنانے کا ارادہ فرمایا تو فرمایا اے بنو نجار! اپنے باغ کی قیمت مجھے بتاؤ انہوں نے عرض کیا ہم اسکی قیمت صرف اللہ تعالیٰ سے وصول کریں گے (ثواب مقصود ہے) آپ نے انکار فرمایا اور مسجد کی زمین دس دینار کے بدلے خریدی جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مال سے ادا کی گئی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ مکرمہ سے اپنا تمام مال ساتھ لائے تھے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مسجد کی جگہ پر کھجور کے درخت، بنجر زمین اور مشرکین کی قبریں تھیں آپ کے حکم سے قبروں کو اکھاڑا گیا ویران جگہ کو برابر کیا گیا اور درخت کاٹ دئیے گئے پھر آپ نے اینٹیں بنانے کا حکم دیا تو وہ بنائی گئیں اور مسجد تعمیر کرکے کھجور کی شاخوں سے چھت ڈالی گئی جبکہ ستون کھجور کی لکڑی سے بنائے گئے
(ج ۱ص٢٠٤)
اور حضور شارح بخاری فقیہ اعظم ہند علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ
ایک روایت میں ہے کہ وہ کھجوروں کا کھلیان لگانے کی جگہ تھی جہاں کھجوریں سکھائی جاتیں مطلب یہ کہ اس باغ میں یہ سب تھا کچھ قبریں بھی تھیں کچھ کھنڈر تھا کچھ درخت تھے کچھ میدان تھا جہاں کھلیان لگتا تھا یہ باغ سہل اور سہیل نام کے دو یتیموں کا تھا جو حضرت اسعد ابن زرارہ یا حضرت معاذ ابن عفراء کی پرورش میں تھے انکی پیشکش کے باوجود حضور نے حضرت صدیق اکبر سے اسکی قیمت دس دینار دلوائی
(نزہۃ القاری ج۲ص١٤٦)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مسجد نبوی شریف کی زمین میں حضرت سہل و سہیل دو یتیموں کا تھا جسمیں کھجور کے درخت،کچھ بنجر اور مشرکین کی قبریں تھیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مال سے خرید کر وہاں مسجد نبوی شریف کی تعمیر فرمائ اور اس تعمیری کام میں آپ بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ساتھ رہے
لہذا آپ نے جو سنا کہ وہ یتیموں کی زمین تھی اور جو پڑھا کہ وہاں مشرکین کی قبریں تھیں دونوں باتیں صحیح و درست ہیں
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد مزمل حسین نوری مصباحی
کشنگنج بہار
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ