سوال
زید نے بکر کو ٢٠٠٠ روپے دیا اس اس کے عوض اس نے کہا کہ جب تک یہ روپے لوٹا نہ دو تمہاری زمین میرے پاس گروی ہے. دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس زمین سے جو پیداوار ہے اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اس زمین سے جو پیداوار ہے کیا وہ سود میں شمار ہوگا؟
المستفی محمد یونس احمد
جواب
زمین کی پیداوار بکر کا حق ہے. اگر زید نے یہ کہا ہے کہ میں تجھے دو ہزار قرض دیتا ہوں تیری گروی زمین کے بدلے اور اس زمین سے نفع بھی حاصل کرتا رہوں گا تو یہ نفع سود ہے اور سود مطلقا حرام
عن عمارة الهمداني قال: سمعت عليا يقول: قال رسول الله ﷺ: كل قرض جر منفعة فهو ربا
(إتحاف الخیرۃ المهرۃ، ٣٨٠/٣؛ مسند الحارث، م: ٤٣٧)
حضرت علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ
فرمایا نبی کریم ﷺ نے: قرض پر جو نفع حاصل کیا جائے وہ سود ہے
اور صحابی رسول فضلہ بن عبید رضی الله عنہ فرماتے ہیں
كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا
(السنن الکبری للبیہقی، م: ١٠٩٣٣)
امام ابراہیم نخعی رحمہ الله بھی یہی فرماتے ہیں
كل قرض جر منفعة، فهو ربا
(المصنف ابن أبی شیبہ، م: ٢٠٦٩٠)
عن ابن سيرين قال
كل قرض جر منفعة فهو مكروه
(المصنف لعبد الرزاق، م: ١٤٦٥٧)
ابن سیرین رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں
ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے وہی مکروہ ہے
امام طحاوی فرماتے ہیں
حرم كل قرض جر نفعا
(شرح معانی الآثار، جلد: ٤، ص: ٥٩، ٩٩)
حرام ہے ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل کیا جائے
ہاں کافر حربی سے اس طرح کا فائدہ حاصل کرنا جائز ہے اس لیے کہ عقود فاسدہ کے ذریعہ ان کا مال لینا جائز ہے
جیساکہ علامہ برہان الدین حنفی رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں
لأن مالهم مباح في دارهم فبأي طريق أخذه المسلم أخذ مالا مباحا إذا لم يكن فيه غدر، بخلاف المستأمن منهم لأن ماله صار محظورا بعقد الأمان
(الهدایۃ شرح بدایۃ، ٦٥/٣)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ ابن علیم المصبور العینی ومحمد معین الدین خان رضوی
گونڈی مہاراشٹر ممبئی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ