Headlines
Loading...
Gumbade AalaHazrat

سوال
  زید کے پاس حلال کمائی ہے اور لوگ کہتےہیں کہ اس کے پاس حرام مال بھی ہے تو کیا زید سے چندہ لیکر مسجدمیں لگا سکتے ہیں؟ المستفی محمد وارث علی

       جواب

زید اپنی حلال کمائی سے چندہ دے سکتا ہے. اور وہ مجموعی رقم جس میں حرام وحلال دونوں روپیے مخلوط ہوگئے یا معلوم نہیں کہ حرام ہے یا حلال، مسجد میں بطور چندہ دی جا سکتی ہے. به نأخذ مالم نعرف شیئا حراما بعینه. اور جس کمائی کا حرام ہونا قطعا معلوم ہو اس سے مسجد میں چندہ نہیں دیا جا سکتا. ہاں، ان روپیوں سے مسجد کے لیے اشیاء خرید کر دے سکتا ہے اس طرح کے ان اشیاء کی عقد ونقد، حرام روپیوں پر جمع نہ ہو. مثلا حلال روپیے دکھا کر کہے کہ فلاں چیز مجھے دے یہ عقد ہوا اور معاوضہ میں زر حرام ادا کرے یہ نقد ہوا. اس صورت چونکہ میں عقد ونقد زر حرام پر جمع نہ ہوئے، اس شئے کو مسجد میں لگانا جائز ہوگا
سیدی سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ تنخواہ میں وہ روپیہ کہ بعینہٖ سود میں آیا ہو نہ لے، اور مخلوط ونامعلوم ہو تو لے سکتا ہے. یونہی ایسے نامعلوم روپے سے مسجد ومدرسہ کی اعانت بھی ہوسکتی ہے، خصوصا ایسی حالت میں کہ مال حلال غالب ہے. (اور احتراز اولٰی خصوصا جب کہ غالب حرام ہو فتاوی رضویہ، ٥٢٢/١٩).
اور فرماتے ہیں جب تک ہمیں معلوم نہ ہو کہ یہ خاص روپیہ جو ہم کو دیتا ہے وجہ حرام سے ہے اس کا لینا اور مسجد میں صرف کرنا جائز ہے کچھ حرج نہیں (فتاوی رضویہ، ٣٤٢/١٦)
اور فرماتے ہیں کہ جس کے پاس مال حلال وحرام مختلط ہو۔ مثلا تجارت بھی کرتاہے اور سود بھی لیتا ہے اس کے یہاں کی نوکری شرعاً جائز ہے، اور جو کچھ بھی وہ دے اس کے لینے میں حرج نہیں، جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ چیز جو ہمیں دے رہا ہے، بعینہ مال حرام ہے (فتاوی رضویہ، ٥٠٠/١٩) واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی

گونڈوی مہاراشٹر ممبئی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ