سوال
متولی صاحب نے امام صاحب کو کسی ضروری وجہ سے مسجد سے نکال دیا اس محلے کے لوگوں کو امام صاحب سے بہت محبت تھی اب متولی صاحب نے دوسرے امام صاحب کو بلایا اور لوگ دوسرے امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے راضی نہ ہوئے لیکن دوسرے امام صاحب کو محلہ کے لوگوں نے گالی گلوچ چغل خوری غیبت کرنا شروع کر دی اور پھر چھ ماہ کے بعد نماز پڑھنا شروع کر دی اور ابھی بھی نماز پڑھ رہے ہیں. قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتائیں کہ ان لوگوں نے اب تک جو نماز پڑھی ہے اس نماز کو دہرانا پڑے گا یا پھر ان کی نماز ہو جائے گی جبکہ ابھی بھی اگر ان کو موقع ملتا ہے تو امام صاحب کی برائی بیان کرتے ہیں جبکہ امام صاحب کے اندر بظاہر کوئی ایسی خرابی نہیں ہے جبکہ مفتی صاحب مولانا صاحب اور بہت سارے پڑھے لکھے لوگ امام صاحب کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں
المستفی محمد تابش عالم
جواب
ضروری ہے کہ امام سنی صحیح العقیدہ، صحیح الطہارۃ، صحیح القراۃ، عالم احکام نماز وطہارت، غیر فاسق معلن ہو یعنی گناہ کبیرہ کا کھلے عام ارتکاب نہ کرتا ہو. اس محلہ کا امام اسی طرح ہے پھر بھی مقتدی اس سے بلا وجہ بغض رکھیں تو خود گنہگار ہیں اور اس امام کے پیچھے ان کی نماز ادا ہے کیونکہ امام سے نفرت بغیر امر شرعی کراہت نماز کا باعث نہیں. اور اگر اس میں شرائط مذکورہ نہیں یا شرائط تو ہے پر اس سے افضل امام موجود ہے. جیسے موجودہ امام اگر ولد الزنا، نابینا، غلام، اعرابی، جذامی وغیرہ ہو یا دوسرا امام اس سے زیادہ عالم، مسائل طہارت ونماز کو جاننے والا، جسمانی وروحانی نقائص سے پاک، موجود ہے اسی لیے قوم اس سے نفرت کرتی ہے تو اس کا امام بننا مکروہ تحریمی کہ اس کی امامت سے جماعت کثیر اور لوگوں میں رغبت نہ ہوگی. اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تنزیہی اور اگر یہ کراہت بھی قوم کی رضاکے ساتھ مقید ہو حتّی کہ اگر وہ ناپسند کریں تو نماز بھی مکروہ تحریمی ہوگی لیکن اس میں چند لوگوں کی ناپسندیدگی کا اعتبار نہیں. اس کا وبال امام اور اس متولی کے سر ہوگا اور اگر یہی امام افضل ہے یا لوگ اس امام سے اس لیے نفرت نہیں کرتے کہ اس سے فضیلت والا کوئی امام موجود ہے صرف گزشتہ امام سے محبت ہی مانع اقتداء ہے جیسا کہ سائل کے بیان سے ظاہر ہے تب کراہت امام پر نہیں ان لوگوں پر ہے یہ لوگ ترک جماعت اور امام سے بغض کے سببب گنہگار ہوئے اب چاہیے کہ اعلانیہ توبہ کریں اور چونکہ نفرت کا سبب خارجی ہے ان نمازوں کا اعادہ نہیں
اثر خارجی بر ذات امام یا قوم نہ بر نماز ،ووقوع اثرش بر امام مشروط بوجہ اول ست ورنہ خود برقوم بازگردد
(فتاوی رضویہ، ٤٧٥/٦؛ )
خارجی کا اثر ذاتِ امام یا قوم پر ہوگا نماز پر نہیں خارجی کا وقوع ِاثر امام پر وجوہِ اول سے مشروط ہے ورنہ خود قوم پر، اثر لوٹ جائے گا
ج
الشاہ امام احمد رضا خان بریلوی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ
اگر بد پنداشتن بباعث امر شرعی باشد امامت شخص بد پند اشتہ قوم مکروہ تحریمی ست لما في العلمكیریة وقاضی خان رجل أم قوما وھم له کارھون فإن کانت الکرھة لفساد فیه أو لأنهم احق بالإمامة منه کره له ذلك
(فتاوی رضویہ، ٤٦٧/٦؛ الہندیہ، ٩٧/١)
اسے برا جاننے کی وجہ اگر کسی امر شرعی کے باعث ہو تو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، کیونکہ عالمگیری اور قاضی خان میں ہے وہ شخص جس نے کسی قوم کی امامت کرائی حالانکہ وہ قوم اسے پسند نہیں کرتی پس اگر کراہت خود اس شخص میں کسی فساد کی وجہ سے ہو یا اس وجہ سے کہ اس سے دوسرے افراد امامت کے زیادہ لائق ہوں تو ان دونوں صورتوں میں شخص مذکور کو امامت کرانا مکروہ ہے
قال العلامة الحصكفي
لو أم قوما وھم له کارھون ان الکراھة لفساد فیه أو لأنهم أحق بالإمامة منه کره ذلك تحريما لحدیث ابوداؤد: ولا یقبل الله صلوة من تقدم قوما وھم له کارھون. وإن هو أحق لا والکراھة علیهم
(رد المحتار، ٢٩٧/٢)
اگر کسی شخص نے قوم کی امامت کی حالانکہ وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں تو اگر لوگوں کی نفرت امام کے اندر کسی خرابی کی بنا پر ہو یا وہ لوگ بہ نسبت امام کے امامت کے زیادہ حقدار ہوں تو ایسی صورت میں اس شخص کا امام ہونا مکروہ تحریمی ہے اس کی دلیل حدیثِ ابو داؤد ہے جس میں فرمایا ہے
الله تعالى
اس شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا جو لوگوں کا امام بنا حالانکہ لوگ اسے ناپسند کرتے تھے اور اگر وہ امام ہی امامت کا زیادہ حق رکھتا ہو تو اس پر کراہت نہیں بلکہ لوگوں کا نفرت کرنا مکروہ ہوگا
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی
گونڈوی مہاراشٹر ممبئی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ