سوال
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ نوجوانوں کی ایک کمیٹی چلتی ہی اور اس سے لگ بھگ پچاس سے ساٹھ لوگ جڑے ہیں اس کمیٹی کےچلانے کا طریقہ یہ ہیکہ لوگ سالانہ پانچ سو روپیہ جمع کرتے ہیں اور جو پیسہ جمع ہوتا ہے اور پھر ڈاک ہوتا ہے جسکا ڈاک سب سے زیادہ ہوتا ہے پیسہ اسے ملتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ ایک سال بعد پانچ ہزار کا چھ ہزار یا سات ہزار روپیہ دیناہے اب زید کا کہنا ہیکہ یہ طریقہ صحیح یا غلط اور جتنے لوگ اس سے جڑے ہیں اس پر شریعت کا کیا حکم ہے سود ہے یا مثل سود قرآن وحدیث سے واضح فرماٸیں کرم ہوگا
المستفی محمدآدم علی ثاقب
جواب
جس قرض پر منافع کمانے کی صورت مضمر ہو وہ سود ہے اور صورت مسئولہ کی صورت بھی ایسے ہی منافع پر مشتمل ہے لہذا یہ سود ہی ہوگا
ہاں!اگر ایسی کمیٹی ہو کہ پیسے جمع ہوتے ہوں اور ان پیسوں سے کسی ضرورت مند کو بطورقرض دیا جاتا ہو اور اس سے کوئی اضافی رقم نہ لی جاتی ہو تو یہ صورت جواز کی ہوگی
چنانچہ مرشد گرامی سرکار تاج الشریعہ قدس سرہ ایسے ہی سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
یہ صورت ناجائز معلوم ہوتی ہے کہ اس میں ایک طرح سے جوا کی صورت پائی جاتی ہے کیونکہ یہاں قرض پر منافع کمانے کی صورت ہوئی جو جوا کے حکم میں ہے
اسی کے حاشیہ میں ہے
اور حدیث پاک میں
ایسے قرض کے لین دین سے منع کیا گیا ہے
جیساکہ جامع صغیر میں ہے
کل قرض جر منفعۃ فھو ربا
مزید فرماتے ہیں
اور اگر ایسی صورت نہ ہو بلکہ اس طرح ہو کہ چند لوگ پیسہ اکٹھا کرتے ہوں اور جو شخص ضرورت مند ہو اسے دے دیتے ہوں پھر وہ شخص رقم ویسے کی ویسی ہی بغیر منافع کے واپس کر دیتا ہو تو اس میں حرج نہیں معلوم ہوتاہے
( تاج الشریعہ کی علمی مجالس ص ٢٢٤)
لہذا مذکورہ صورت سود اور جوا کی ہے جو نا جائز وحرام ہے جتنے لوگ اس میں جڑے ہیں سبھی توبہ کریں اور آئندہ ایسی کمیٹی کی تشکیل سے اجتناب کریں
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد مزمل حسین نوری مصباحی
مقام دھانگڑھا کشن گنج بہار
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ