Headlines
Loading...
 آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھائی بہن میں شادی ہو تی تھی  توآج کیوں نہیں ہوتی ہے

آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھائی بہن میں شادی ہو تی تھی توآج کیوں نہیں ہوتی ہے

Gumbade AalaHazrat

سوال
  اسلام علیکم حضرت اس سوال پر کیا فرماتے ہیں مفتیان دین بات یہ ہےکہ شادی کا رسم رواج کب سے شروع ہوی آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھائ بہن میں شادی ہو تی تھی توآج کیوں نہیں ہوتی ہے آدم علیہ السلام کی شریعت میں بھائ بہن میں شادی ہوتی تھی یہ بات کہاں لکھی ہوی ہے قرآن میں ہے حدیث میں یا کسی اور کتاب میں ہے سنی مفتیان اکرام جواب دیں حوالے کے ساتھ جلد جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں المستفی محمد وارث علی

       جواب

آدم علیہ السلام کی زوجہ یعنی حوا علیھا السلام کے بطن سے ایک ہی بار میں دو بچے پیدا ہوتے. ایک لڑکا اور لڑکی. اور ان دونوں کا آپس میں نکاح جائز نہ تھا. پھر جب دوسرے بطن سے دو بچے پیدا ہوتے اس میں جو لڑکا ہوتا اس کی شادی پچھلی بطن سے پیدا شدہ لڑکی سے کر دی جاتی
امام قرطبی اسی کی وضاحت میں فرماتے ہیں وكان يزوج الذكر من هذا البطن الأنثى من البطن الآخر، ولا تحل له أخته توأمته، فولدت مع قابيل أختا جميلة واسمها إقليمياء، ومع هابيل أختا ليست كذلك واسمها ليوذا، فلما أراد آدم تزويجهما قال قابيل: أنا أحق بأختي، فأمره آدم فلم يأتمر، وزجره فلم ينزجر، فاتفقوا على التقريب، قال جماعة من المفسرين منهم ابن مسعود

(تفسیر قرطبی، ١٣٤/٦)
حضرت آدم علیه السلام ایک بطن کے لڑکے کی دوسرے بطن کی لڑکی سے شادی کرتے تھے کسی کے لیے اس کی جڑواں بہن حلال نہیں تھی قابیل کے ساتھ اس کی خوبصورت بہن پیدا ہوئی جس کا نام اقلیمیا تھا اور ہابیل کے ساتھ بہن پیدا ہوئی وہ ایسی خوبصورت نہ تھی اس کا نام لیوذا تھا جب حضرت آدم عليه السلام نے ہابیل اور اقلیمیا کا نکاح کرنا چاہا تو قابیل نے کہا : میں اپنی بہن کا زیادہ حق دار ہوں، حضرت آدم عليه السلام نے قابیل کو حکم دیا تو اس نے حکم نہ مانا، حضرت آدم عليه السلام نے اسے منع کیا تو وہ نہ رکا، انہوں نے قربانی پر اتفاق کرلیا، یہ مفسرین کی ایک جماعت کا قول ہے جن میں
حضرت ابن مسعود رضی الله تعالى عنه بھی ہیں. پھر اسے درست قرار فرماتے ہوئے بیان فرماتے ہیں وأن القول ما ذكرناه من أنه كان يزوج غلام هذا البطن لجارية تلك البطن. والدليل على هذا من الكتاب قوله تعالى: [يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء: النساء: ١]. وهذا كالنص ثم نسخ ذلك وہ قول جو ہم نے ذکر کیا ہے کہ حضرت آدم عليه السلام ایک بطن کے لڑکے کا نکاح دوسرے بطن کی لڑکی سے کرتے تھے، یہ درست ہے اور اس پر دلیل یہ ارشاد ہے : [ترجمہ: اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے اور الله سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بیشک الله ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے النساء: ١: کنز الایمان] یہ نص کی مانند ہے پھر یہ منسوخ ہوگیا. (امام قرطبی کا کلام ختم ہوا ہے) معلوم ہوا کہ اب اس طرح نکاح کا حکم منسوخ ہوگیا ہے عن ابن مسعود عن ناس من الصحابة أنه كان لايولد لآدم مولود ألا ولد معه جارية فكان يزوج غلام هذا البطن لجارية البطن الآخر ويزوج جارية هذا البطن غلام هذا البطن الآخر حتى ولد له ابنان يقال لهما قابيل وهابيل وكان قابيل صاحب زرع وكان هابيل صاحب ضرع
(تفسیر طبری، ٣٢٢/٨؛ تفسیر الدر المنثور، ٥٤/٣)
امام ابن جریر نے ابن مسعود اور صحابہ میں سے کچھ لوگوں سے روایت کیا ہے کہ آدم عليه السلام کی جو بھی اولاد پیدا ہوتی تھی۔ لڑکے کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوتی تھی۔ اس پیٹ کے لڑکے کی شادی دوسرے پیٹ کی لڑکی سے کرتے تھے۔ اور اس پیٹ کی لڑکی کی شادی دوسرے پیٹ کے لڑکے سے کرتے تھے۔ یہاں تک کہ دو لڑکے پیدا ہوئے جن کو قابیل اور ھابیل کہا جاتا تھا۔ قابیل کھیتی باڑی والا آدمی تھا اور ہابیل مویشیوں والا آدمی تھا وأخرج عبد بن حميد وابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم وابن عساكر بسند جيد عن ابن عباس قال نهى أن ينكح المرأة أخاها توأمها وأن ينكحها غيره من اخوتها وكان يولد له في كل بطن رجل وامرأة (الدر المنثور، ٥٥/٣؛ تفسير طبری، ٣٣٩/٨؛ امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن عساکر سند جید کے ساتھ
ابن عباس رضی الله تعالى عنه سے روایت کی ہے کہ آدم عليه السلام کو منع کیا گیا تھا کہ اپنی لڑکی کا نکاح اس کے جڑواں بھائی سے کریں بلکہ یہ حکم کیا گیا کہ وہ اس کے دوسری باری میں پیدا ہونے والے بھائیوں سے نکاح کریں اور (اماں حوا) کے ہر پیٹ سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوتی تھی واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

کتبہ ابن علیم المصبور الرضوی العینی

مقام ممبئی مہاراشٹر انڈیا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ