یہ کہنا کہ کل ہم کیا کھائینگے تو کیا حکم ہے
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام زید کے اس جملہ کے بارے میں کہ آیندہ کل ہم کیا کھائیں گے اس بارے میں ہم ایک بار سوچتے ہیں لیکن اللہ ستر بار سوچتا ہے کہ کل ہمارا بندہ کیا کھائے گا قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیں کیا ایسا بولنا درست ہے
المستفتی عبدالرشید علائی دارجلنگ
الجواب بعون الملک الوھاب مذکورہ جملے میں دوباتیں کفریہ ہیں
(١) اللہ جل شانہ کے لئے سوچنے کا جملہ استعمال کیا جو کہ کفر ہے کیونکہ سوچتا وہ ہے جو عالم الغیب نہ ہو اور قدرت نہ رکھتاہو جبکہ رب ذوالجلال کی شان تو یہ ہےکہ خود فرماتاہے
هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ (پ٢٨سورہ حشر آیت ٣٢)کہ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہر نہاں و عیاں(چھپی وظاہر) کا جاننے والا وہی ہے بڑا مہربان رحمت والا ( کنزالایمان)
اور اس کی شان یہ ہے کہ لفظ کُنْ کے ذریعہ ہی اپنی مشیت کو وجود بخش دیتا ہے اسی کا فرمان ہے
وَ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (پ ١٦ سورہ مریم آیت ٣٥)
کہ جب کسی کام کا حکم فرماتاہے تو یونہی کہ اس سے فرماتاہے ہو جا وہ فورا ہو جاتا ہے (کنزالایمان)
ان آیات بینات سے خوب خوب واضح ہو گیا کہ رب کریم عالم الغیب والشھادۃ ہے اسے کسی چیز کے لئے سوچنے کی ضرورت نہیں کیونکہ سوچتا وہ ہے جو عالم الغیب نہ ہو اور عاجز ہو اور میرا رب عالم الغیب والشھادۃ ہے قادر مطلق ہے اس لئے لفظ سوچنا کا اطلاق باری تعالیٰ کے لئے در حقیقت آیات قرآنیہ کا انکار ہے جو کفر ہے
لہذا خداوند متعال کی شان میں لفظ سوچنا کا اطلاق کفر ہے
(٢)اور دوسرا یہ کہ
کل ہمارا بندہ کیا کھائیگا یہ جملہ بھی کفریہ ہے کہ اس جملہ سے اللہ تعالیٰ کی عالم الغیب ہونے کا انکار ہے جبکہ اس کے علم کا حال یہ ہے کہ وہ ہماری دلوں کے حالات کو بھی جانتاہے ہماری ہر ڈھکی چھپی چیزیں اس کے پیش نظر ہیں جیساکہ سورہ حشر کی آیت گزری
اور فقیہ اعظم ہند حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ اسی قسم کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں
یہ جملہ کہ اللہ بھی اپنے دل میں سوچتا ہوگا یقیناً صریح کفر ہوگا الی ان قال
پھر اس نے کہا کیا ہوگا اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ اللہ عز وجل یہ نہیں جانتا تھا کہ ان دونوں میں صلح ہوگی یہ بھی کفر ہے(فتاویٰ شارح بخاری ج۱ص ١٦٢,١٦٣)
لہذا ایسا جملہ بولنا ہرگز ہرگز جائز ودرست نہیں بلکہ ایسا کفریہ جملہ بولنے سے آدمی کافر و مرتد ہوجاتا ہے جس پر توبہ تجدید ایمان و نکاح لازم ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ محمد مزمل حسین نوری مصباحی دھانگڑھا کشنگنج بہار ٨/رجب المرجب ١٤٤٤ھ ٣١/جنوری ٢٠٢٤ بروز منگل
Sawal Assalamu Alaikum kya farmate hain ulmaye Ikram v muftianizam is masale ke bare mein ki ye jumala Kahana ki kal Ham Kya khaenge to kaisa hai jawab Inayat farmae
Sawal karne wale ka Name Mohammed Abdul Rashid
Al jawab walekum assalam majkura Baton Mein Do jumle kufriyan hain
1 Allah Tala ke liye sochne ka jumala istemal Kiya Jo ki kufar hai Kyunki Sochta vo hai jo aalimulgaib Na Ho aur Kudrat na Rakhta Ho jabki Rab Tala ki shan to yah hai Ki Khud farmata hai
Tarjuma.... ki Vahi Allah hai Jiske Siva Koi mabud Nahi Har Neha w aaya (Chhupi jahir)ka janne wala vahi hai bada rahamat wala
(📘kanjul Imaan)
(Para 28 surah hashr ayat no: 32)
Aur uski Shan yah hai Ki lafje Kun ke jarie hi apni mashiyat ko vajud bakhsh deta hai Usi Ka Farman hai Ki
Arbi.......
Tarjuma.. Jab Kisi kam ka hukm farmata hai to Yun Hi uska usse farmata hai ki ho ja wo fauran ho jata hai
Hawala al quraan para16 sure maryam ayat no: 35
Kataba Mohammed muzammil husain noori misbahi kishanganj bihar
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ