Headlines
Loading...


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اس پر ایک اشکال پیش کیا جا رہا ہے آپ تمامی علمائے اہل سنت سے گزارش ہے آپ حضرات تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی


علامہ ابن سیرین علیہ الرحمۃ سے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ امام مہدی علیہ السلام زیادہ بہتر ہیں یا حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما تو انہوں نے فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام زیادہ بہتر ہیں.. بلکہ نبی کے برابر ہیں


 کتاب الفتن جلد دوم ص ٢٥٠ 

 

اور امام سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب الحاوی للفتاوی میں لکھا ہے...

کہ جب فتنوں کا زمانہ آۓ تو تم اپنے گھروں میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ تم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بھی بہتر آدمی کے آنے کی خبر سن لو. لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما سے بھی بہتر کوئی شخص آئے گا ؟ فرمایا وہ تو بعض انبیاء پر فضیلت رکھتا ہوگا...

 الحاوی للفتاوی جلد دوم ص ٩٢


ان دونوں عبارتوں میں امام مہدی علیہ السلام کو نبی کے برابر اور سیدنا ابو بکر صدیق و عمر فاروق سے بہتر قرار دیا گیا... 

 اس کا اصل مفہوم کیا ہے علمائے کرام برائے کرم رہنمائی فرمائیں سائل محمد مرشد رضا

(مسئلہ) علامہ ابن سیرین علیہ الرحمۃ سے امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا گیا کہ امام مہدی علیہ السلام زیادہ بہتر ہیں یا حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما؟ تو انہوں نے فرمایا کہ امام مہدی علیہ السلام زیادہ بہتر ہیں، بلکہ نبی کے برابر ہیں۔ (کتاب الفتن جلد دوم ص ٢٥٠) اور امام سیوطی علیہ الرحمہ کی کتاب الحاوی للفتاوی میں أن کا ہی قول لکھا ہے کہ جب فتنوں کا زمانہ آئے تو تم اپنے گھروں میں بیٹھ جانا یہاں تک کہ تم ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے بھی بہتر آدمی کے آنے کی خبر سن لو۔ لوگوں نے پوچھا کہ کیا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے بھی بہتر کوئی شخص آئے گا؟ فرمایا وہ تو بعض انبیاء پر فضیلت رکھتا ہوگا۔ (الحاوی للفتاوی جلد دوم ص ٩٢) ان دونوں عبارتوں میں امام مہدی علیہ السلام کو نبی کے برابر اور سیدنا ابو بکر صدیق وعمر فاروق سے بہتر قرار دیا گیا۔ اس کا اصل مفہوم کیا ہے علمائے کرام برائے کرم رہنمائی فرمائیں؟

(جواب) یہ دونوں عبارتیں نعیم بن حماد کی کتاب الفتن سے ہیں اور ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے: صدوق یخطئ کثیرا۔ اور چونکہ یہ اخبار اجماع کے خلاف ہیں تو ہم ان الفاظ میں ان اخبار کو ان کی خطا پر محمول کرتے ہیں۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے ہی مروی ہے کہ فرمایا: ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻷﻣﺔ ﺧﻠﻴﻔﺔ ﻻ ﻳﻔﻀﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﻭﻻ ﻋﻤﺮ. (المصنف، م: ٣٧٦٥٠) یعنی اس امت میں ایک خلیفہ ہوں گے جن پر ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کو بھی فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ یہ الفاظ پچھلے الفاظ سے ہلکے ہیں۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی عوف اعرابی ہے جسے علماء نے شیعہ، قدری حتی کہ رافضی شیطان تک کہا ہے، لہذا ہم اس روایت کو قبول نہیں کرتے جبکہ یہ شیعوں کے عقیدے موافق ہے۔امام سیوطی اسے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ﻭﻟﻴﺲ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﻬﺬا اﻟﺘﻔﻀﻴﻞ اﻟﺮاﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺯﻳﺎﺩﺓ اﻟﺜﻮاﺏ ﻭاﻟﺮﻓﻌﺔ ﻋﻨﺪ اﻟﻠﻪ، ﻓﺎﻷﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺼﺤﻴﺤﺔ، ﻭاﻹﺟﻤﺎﻉ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﺃﺑﺎ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ ﺃﻓﻀﻞ اﻟﺨﻠﻖ ﺑﻌﺪ اﻟﻨﺒﻴﻴﻦ۔ (العرف الوردہ في أخبار المهدي، ص: ٨٨) اور امام ہیثمی فرماتے ہیں: وکأن ابن سيرين أراد بقوله «کان يفضل علي بعض الأنبياء» أنه يؤم عيسي، وللامام فضل ما علي المأموم من حيث التبعية لکن في الحقيقة ليس هذا الفضل له، بل لنبينا ﷺ، لأن ائتمامه به علامة علي نزوله بشريعة نبينا ﷺ واتباعه له. (القول المختصر، ص: ٧١)

ایک اور حدیث ہے جس سے ایسا مفہوم اخذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، امام اہل سنت اس کے متعلق فرماتے ہیں: حدیث میں ہمراہیان سیدنا امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کی نسبت آیا کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے پچاس کا اجر ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: ان میں کے پچاس کا یا ہم میں کے؟ فرمایا: بلکہ تم میں کے۔ تو اجر ان کا زائد ہوا، انعام ومعاوضہ محنت انہیں زیادہ ملا مگر افضلیت میں وہ صحابہ کے ہمسر بھی نہیں ہوسکتے، زیادت درکنار، کہاں امام مہدی کی رفاقت اور کہاں حضور ﷺ کی صحابیت، اس کی نظیر بلا تشبیہ یوں سمجھئے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دیئے اور وزیر کو خالی پروانہ خوشنودی مزاج دیا تو انعام انہیں افسروں کو زیادہ ملا اور اجر ومعاوضہ انہوں نے زیادہ پایا مگر کہاں وہ اور کہاں وزیراعظم کا اعزاز۔ (فتاوی رضویہ، ٣٦٩/٢٩)

میں کہتا ہوں: اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتو یہ ضروری تو نہیں کہ خلیفہ سے امام ابن سیرین کی مراد امام مہدی ہی ہوں، عیسی علیہ السلام بھی ہوسکتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے: ينزل عيسى خليفة على أمتي يدق الصليب ويقتل الخنزير. (مدارك التنزيل، ١٧٦/١) یعنی عیسی میری امت پر بطور خلیفہ اتریں گے، صلیب کو توڑ دیں گے، خنازیر کو قتل کر ڈالیں گے۔ عیسی علیہ السلام کو اس طور پر نبی کریم ﷺ کا خلیفہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ حضور ﷺ کی شریعت کی پیروی کریں گے۔ کتب علمائے اہل سنت میں ان کے بارے میں ہے: لا يكون إليه وحي ونصب أحكام بل يكون خليفة رسول الله. (شرح العقائد للتفتازاني، الفرائد، ص: ٤٥٥؛ شرح شرعة الاسلام لسيد علي زاده، ص: ٢٣؛ روح المعانی، ٣٤/٢٢؛ عمدة المريد، ص: ١١٣١؛ روح البیان، ١٨٨/٧) تو ممکن ہے کہ امام ابن سیرین کی یہی مراد ہو۔ والله تعالى أعلم


کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ