Headlines
Loading...


(سئل) ایک بالٹی میں پانی ہے نکالتے وقت ناخن پانی میں ڈوب جانے سے پانی مستعمل ہوگا یا نہیں اور اس پانی استنجا کر سکتے ہیں؟ 

(فأجاب) بالٹی بھر پانی میں محدث (یعنی بے وضو یا جس پر غسل فرض ہو) کا بغیر دھلا ہوا ناخن پانی میں ڈبونا، پانی کو مُستَعمَل کر دیتا ہے چاہے وضو وغسل کے ارادے سے ایسا کیا یا محض ٹھنڈک یا میل نکالنے کے لیے یا اگر غیر ارادۃ ہو مثلا کسی دوسرے نے جبرا اس کا ہاتھ پکڑ کر پانی نکلوایا اور اس کا ناخن ڈوب گیا یہی اگر نا بالغ اور نا سمجھ ہو تو اس کا ناخن داخل کرنا پانی کو مستعمل نہیں کرتا

بالٹی کے سوا پانی کہیں نہیں تھا نہ کوئی اور برتن اور وہ بالٹی ایسی نہیں ہے کہ اسے جھکا کر پانی حاصل کر سکے تو محدث کو چاہیے کہ وہ دائیں ہاتھ کی صرف انگلیوں سے چُلّو بنا کر پانی نکالے پانی مستعمل نہیں ہوگا. اس ارادے سے اگر ایک ناخن پانی میں داخل کیا تھا کہ کوئی شخص آیا جس کے ہاتھ میں برتن تھا جس سے بالٹی کا پانی نکالا جا سکتا تھا. محدث نے برتن دیکھ کر دوسرا ناخن داخل کر لیا تو پانی مستعمل ہوجائے گا یہی حکم ہوگا اگر قلیل پانی میں دھلا ہوا ناخن ڈالا اور ڈالتے ہی ریح خارج ہوگئی یا کسی طرح حَدَث ہوا

باوضو نے بالٹی سے چُلّو میں پانی نکالا یا کسی چھوٹے برتن سے نکالتے وقت اس میں ناخن ڈوب گیا تو پانی مستعمل نہیں ہوگا. لیکن بہ نیت ثواب  دوبارہ وضو کرنے لیے یا بہ نیت ادائے سنت کھانے سے پہلے یا بعد میں ہاتھ ہونے کے لیے ناخن مطلق پانی میں داخل کیا تو وہ مستعمل ہوجائے گا اور اگر ثواب کی نیت نہیں کی تو نہیں ہوگا. اگر دوسرے سے بہ نیت ثواب وضو کروایا اور خادم نے اِس کا کوئی عضو یا ناخن پانی میں ڈبو دیا اور مسئلہ یاد آتے ہی نکال لیا تو مستعمل ہوجائے گا اور اگر خادم نے بغیر کسی حکم کے وضو دیا تو نہیں ہوگا اگرچہ خادم بہ نیت ثواب وضو کرائے اسی طرح نابالغ کا ہاتھ جس پر نجس نہ لگا ہو، دھلانے کے لیے بہ نیت ثواب اس کا ہاتھ پانی میں داخل کیا یا صرف ناخن تو پانی غیر مستعمل ہی رہے گا

غیر محدث نے بچے یا کسی کو وضو سکھانے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالا تو پانی مستعمل نہیں ہوگا. اسی نیت سے صرف ناخن داخل کیا تھا کہ بچہ بھاگ گیا یا فوت ہوگیا یا کوئی اور وجہ جس کے سبب وضو نہ سکھا سکا تو پانی مستعمل نہیں ہوگا. مندرجہ بالا احکام اس وقت ہیں جب ناخن پانی میں داخل ہونے کے بعد اس سے جدا ہوجائے

غیر مستعمل پانی پاک ہی ہوتا ہے البتہ اس سے نجاست حکمیہ زائل نہیں ہوتی (محدث کا وضو اور جنب کا غسل نہیں ہوتا) لیکن وہ پانی نجاست حقیقہ کے اثر کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہذا اس سے استنجا ہوجائے گا. برتن، کپڑے، زیورات، وغیرہ دھونا اس سے کر سکتے ہیں البتہ اسے پینا اور غذا میں استعمال مکروہ تنزیہی ہے. غیر مستعمل پانی کو وضو وغسل کے لائق بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ برتن میں جتنا غیر مستعمل پانی موجود ہو اس سے زیادہ مستعمل پانی اس میں ملا دیا جائے

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ