Headlines
Loading...


(سئل) شریعت میں دف بجانے کی جو اجازت ہے وہ عام اجازت ہے یا کسی قید سے مقید ہے؟ 

(فأجاب) قال الامام اوقات سرور میں دف جائزہے بشرطیکہ اس میں جلاجل یعنی جھانج نہ ہوں نہ وہ موسیقی کے تال سُرپر بجایاجائے ورنہ وہ بھی ممنوع (فتاوی رضویہ، ١٣٧/٢٤)

اور فرمایا شادی میں (قلت اور دیگر امور جن میں عوام کی آگاہی اور ہوشیار کرنا مقصود ہو جیسے اعلان جہاد یا عید کے موقع پر) دف کی اجازت ہے مگرتین شرط سے 

(۱) ہیئات تطرب پرنہ بجایاجائے یعنی رعایت قواعد موسیقی نہ ہو ایک یہی شرط اس مروج کے منع کو بس ہے کہ ضرورتال سم پربجاتے ہیں

(۲) بجانے والے مرد نہ ہوں کہ ان کو مطلقاً مکروہ ہے۔

(۳) عزت داربیبیاں نہ ہوں نص علی کل ذٰلک فی ردالمحتار. وا

ﷲ تعالٰی اعلم (فتاوی رضویہ، ١٤١/٢٤)

اور فرمایا فی الدرالمختار جاز ضرب الدف فیه اھـ یرید العرس قال فی ردالمحتار جواز ضرب الدف فیه خاص بالنساء کما فی البحر عن المعراج بعد ذکرہ انه مباح فی النکاح ومافی معناہ من حادث سرور قال وھو مکروہ للرجال علی کل حال للتشبه بالنساء (فتاوی رضویہ ٣٠٦/٢٣)

در مختار میں ہے شادیوں میں دف بجانا جائز ہے. علامہ شامی نے اپنے فتاوی میں لکھا ہے کہ شادیوں میں دف بجانا عورتوں کے ساتھ خاص ہے اس لئے کہ البحرالرائق میں معراج الدرایہ کے حوالے سے منقول ہے، اس مسئلہ کے ذکر کرنے کے بعد کہ نکاح اور اس جیسی خوشی کے موقع پر اگر چہ دف بجانا مباح ہے لیکن ہر حال میں مردوں کے لئے مکروہ ہے کیونکہ اس میں عورتوں کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے

کتبہ ندیم العلیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ