Headlines
Loading...

(سئل) علمائے کرام کے بارگاہِ میں سوال ہے کہ جو بچہ ماں کے پیٹ میں سے مرا ہوا پیدا ہوا ہے اس کا نام رکھنا ضروری ہے یا نہیں؟ 

(فأجاب) ظاہر روایت میں امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک اگر بچہ مردہ پیدا ہو تو نام نہیں رکھا جائے گا (یعنی ضروری نہیں ہے) اور اگر پیدا ہوتے ہی مر گیا یا کچھ وقفہ بعد تو نام رکھا جائے گا. امام ابو یوسف کے نزدیک وہ مردہ پیدا ہو تب بھی ابن آدم کی تکریم کی نیت سے اس کا نام رکھا جائے اور غسل دیا جائے گا، اسی پر  فتوی ہے یہی مختار ہے اور جب سبب تکریم ہے تو یہ اشد ضروری یا واجب امر نہیں ہے بلکہ بہتر ہے اور قابل ترجیح عمل

مجمع الأنہر میں ہے عن محمد أنه لا يغسل ولا يسمى وهو ظاهر الرواية لكن المختار هو الأول لأنه نفس من وجه.وفي الدرر غسل في ظاهر رواية لكن ظاهر الرواية غير ظاهر تدبر وأدرج في خرقة كرامة لبني آدم ودفن ولا يصلى عليه إلحاقا له بالجزء ولهذا لم يرث (مجمع الأنہر، ١٨٥/١)

رد محتار میں ہے وإلا يستهل غسل وسمى عند الثاني وهو الاصح، فيفتى به على خلاف ظاهر الرواية إكراما لبني آدم كما في ملتقى البحار (الرد المحتار، ١٢٠/١)

عالمگیری میں ہے من ولد ميتا لا يسمى عند أبي حنيفة رحمه الله تعالى. (فتاوی ہندیہ، ٣٦٢/٥)

جو بچہ مردہ پیدا ہو امام ابو حنیفہ رحمہ الله کے نزدیک اس کا نام نہ رکھا جائے

روي عن أبي حنيفة رحمه الله أنه قال: إذا استهل المولود  سمي،  وغسل، وصلي عليه، وورث وورث عنه، وإذا لم يستهل لم يسم، ولم يغسل، ولم يصل عليه (المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، ١٥٨/٢)

امام ابو حنیفہ رضی الله عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں: جب بچہ چینخ مار کر روئے اور پھر مر جائے تو اس کا نام رکھا جائے اور اسے غسل دیا جائے اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے وہ وارث ومورث ہوگا لیکن اگر وہ روئے نہیں تو اس کا نام نہ رکھا جائے اور نہ ہی غسل اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ

امام بدر الدین العینی فرماتے ہیں

إذا لم يستهل لا يغسل ولا يورث ولا يسمى، لأن هذه الأمور من أحكام الأحياء. (البنایۃ شرح الہدایۃ، ٢٣٢/٣)

اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد نہ روئے تو نہ اسے غسل دیا جائے نہ وہ وارث ہوگا نہ اس کا نام رکھا جائے. کیونکہ یہ امور، زندوں کے احکام میں سے ہے

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں ہے

أما شرائط وجوبه فمنها أن يكون ميتا مات بعد الولادة حتى لو ولد ميتا لم  يغسل كذا روي عن أبي حنيفة أنه قال: إذا استهل المولود سمي وغسل وصلي عليه وورث وورث عنه، وإذا لم يستهل لم يسم ولم يغسل ولم يرث. وعن محمد أيضا أنه لا يغسل ولا يسمى ولا يصلى عليه، وهكذا ذكر الكرخي وروي عن أبي يوسف أنه يغسل ويسمى ولا يصلى عليه. (بدائع الصنائع فصل شرائط وجوب الغسل ٣٠٢/١) 

غسل میت کے واجب ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں

اس کی موت ولادت کے بعد واقع ہوئی ہو چنانچہ اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہوا ہو تو اسے غسل نہ دیا جائے امام ابو حنیفہ سے بھی یہ روایت ملتی ہے وہ فرماتے ہیں: جب بچہ چینخ مار کر روئے اور پھر مر جائے تو اس کا نام رکھا جائے اور اسے غسل دیا جائے اور اس پر نماز جنازہ بھی پڑھی جائے وہ وارث ومورث ہوگا لیکن اگر وہ روئے نہیں تو اس کا نام نہ رکھا جائے اور نہ ہی غسل اور نہ ہی اس پر نماز جنازہ اور نہ ہی وہ وارث ہوگا. امام محمد سے بھی یہی روایت ملتی ہے کہ نہ اسکا نام رکھا جائے نہ غسل دیا جائے اور نہ نماز جنازہ. الکرخی نے بھی یہی لکھا ہے. مگر امام ابو یوسف سے مروی ہے کہ اسے غسل دیا جائے اس کا نام رکھا جائے لیکن اس پر نماز نہ پڑھی جائے

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی١٠/ ربیع الاول، ١٤٤٠

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ