غصے میں قرآن پاک کو پھاڑنے پھینکنے اور بےحرمتی کرنے کا حکم
سوال اگر کوئی شادی شدہ مسلمان انتہائی غصے کے عالم میں قرآن کی بے حرمتی کرے اسے اٹھا کر پھینکے اور پھاڑ ڈالے اسکے بعد اظہار افسوس کرے اور کہے میرا ارادہ توہین یا بے حرمتی کا قطعا نہیں تھا تو ایسے شخص کے بارے میں شرعا کیا حکم ہوگا؟ دراصل واقعہ یہ ہوا کہ اس کی بیوی ایسے ہی سو رہی تھی کہ شوہر بولا تو سوتی ہی رہتی ہے. یہ قرآن پڑھتی نہیں تو اسے کیوں رکھ رکھا ہے؟ اور پھر غصے میں آکر یہ سارا ماجرا ہوا. اہل علم ذرا غور کرکے اس سلسلے میں راہ نمای فرمائیں
المستفتی مفتی توقیر بدر
الجواب قرآن کریم کی تحقیر اور بے حرمتی کفر ہے من استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم الشرع کفر (شرح فقہ اکبر فصل في القراء ة والصلاة ص:۲۰۵) یعنی جس نے قرآن مجید یا مسجد وغیرہ ان چیزوں کی بے حرمتی کرے جنھیں شریعت مطہرہ نے عظیم قرار دیا ہے وہ کافر ہوگیا
قاضي عياض مالکی یحصبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں واعلم أن من استخف بالقرآن أو المصحف أو بشيء منه أو سبهما أو جحده أو حرفاً منه أو آية أو كذب به أو بشيء منه أو كذب بشيء مما صرح به فيه من حكم أو خبر أو أثبت ما نفاه أو نفى ما أثبته على علم منه بذلك أو شك في شيء من ذلك فهو كافر عند أهل العلم بإجماع( شرح الشفاء، 2 / 549)
خواہ یہ کام غصے میں ہو یا خوشی کے عالم میں یہ بطریقہء اہانت ہوا ہے اور صریح کفر ہے. اس معاملے میں کسی طرح کی تاویل نہ سنی جائے گی کیا ایک مسلمان کو اپنی بیوی پر غصہ اتارنے کے لیے قرآن کی اہانت وتحقیر ہی رہ گئی ہے معاذاللہ ثم معاذاللہ ولاحول ولا قوۃ إلا باللہ
علامہ ابن عابدين شامی لکھتے ہیں أو وضع مصحفا فی قازورۃ فإنہ یکفر ،وإن کان مصدقاً فإنہ ذلک فی حکم التکذیب. (ردالمحتار 332/4 باب المرتد) یعنی اگر قرآن مقدس کو کسی نے گندی جگہ پر ڈال دیا تو اس کی تکفیر کی جائے گی اگرچہ وہ قرآن پاک کو مانتا ہو کیوں ایسا گھنونا کام کرنا قرآن مجید کو جھٹلانے کے حکم میں ہے
ایسا شخص کافر ومرتد ہوگیا اس کے گزشتہ سارے نیک اعمال اکارت گئے. اس پر اس برے کام سے توبہ اور فوراً تجدید ایمان فرض ہے اس کی بیوی نکاح سے نکل گئی نئے مہر سے تجدید نکاح بھی لازم اگر ایسا نہیں کرتا تو معاشرہ ایسے شخص کا بائیکاٹ کرے واللہ تعالٰی اعلم
کتبہ فیضان_سرور_مصباحی 19/جولائی 2018ء
اس سوال کے جواب میں استاذ گرامی حضرت مفتی کہف الوری مصباحی. (نیپال) لکھتے ہیں
شخص مذکور کافر ہو گیا اس کے اس قول مذکور کا اعتبار ہرگز نہیں اس پر توبہ و استغفار تجدید ایمان اور اس شنیع حرکت سے برات کا اظہار لازم ہے واللہ تعالٰی اعلم
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ