Headlines
Loading...


 نبی کریم ﷺ نے یوم موسی منایا 

یوم عاشورہ وہ ہے جس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح عطا کی اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کر دیا۔ یوں بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات ملی۔ چناں چہ یہ دن حضرت موسی علیہ السلام کی فتح کا دن بھی تھا اور قوم بنی اسرائیل کی آزادی کا دن بھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا

جب حضور ﷺ نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ ﷺ نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرما ئی تو انہوں نے مذکورہ بالا وجہ بیان کی۔ اس پر آپ نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ یوم عاشورہ کے روزہ کے حوالے سے چند روایات درج ذیل ہیں 

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں قدم النبي ﷺ المدينة فرأي اليهود تصوم يوم عاشوراء فقال ما هذا؟ قالوا هذا يوم صالح هذا يوم نجي الله بني إسرائيل من عدوهم فصامه موسي قال فأنا أحق بموسي منکم فصامه وأمر بصيامه (بخاري الصحيح رقم 1900 احمد بن حنبل، المسند رقم 2644 ابو يعلي المسند رقم 2567) 

حضور ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ان سے اس دن روزہ رکھنے کا سبب دریافت فرمایا تو انہوں نے جواب دیا : یہ دن ہمارے لیے متبرک ہے۔ یہ وہ مبارک دن ہے جس دن الله تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دلائی. پس حضرت موسی علیہ السلام نے اس دن روزہ رکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : تم سے زیادہ موسیٰ کا حق دار میں ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا

ایک اور طرق سے حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی اسی حدیث کے الفاظ درج ذیل ہیں لما قدم النبي ﷺ المدينة وجد اليهود يصومون عاشوراء فَسُئِلوا عن ذلک، فقالوا : هذا اليوم الذي أظفر الله فيه موسي وبني إسرائيل علي فرعون ونحن نصومه تعظيما له فقال رسول الله ﷺ: نحن أولي بموسي منکم ثم أمر بصومه (بخاري الصحيح، کتاب فضائل الصحابة رقم 3727 مسلم الصحيح کتاب الصيام رقم  1130 ابوداؤد السنن رقم : 2444) 

حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشورہ (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں۔ پس ان سے اس کی بابت دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا : اس دن الله تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ ونصرت عطا فرمائی تو ہم اس عظیم کامیابی کی تعظیم و تکریم بجا لانے کے لیے اس دن روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہم تم سے زیادہ موسیٰ کے حق دار ہیں پھر آپ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا

ایک روایت میں یہودیوں کا جواب اور حضور ﷺ کا فرمان اِس طرح منقول ہے 

فقالوا هذا يوم عظيم أنجي الله فيه موسي وقومه وغرق فرعون وقومه فصامه موسي شکرا فنحن نصومه. فقال رسول الله ﷺ فنحن أحق وأولي بموسي منکم فصامه رسول الله ﷺ، وأمر بصيامه. (مسلم الصحيح کتاب الصيام، رقم 1130 بخاري الصحيح کتاب الأنبياء رقم 3216 ابن ماجة السنن، رقم  1734) 

انہوں نے کہا: یہ بہت عظیم دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا کی جب کہ فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اُسی دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا : تمہاری نسبت ہم موسیٰ کے زیادہ حق دار اور قریبی ہیں۔ پس اس دن آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا

مذکورہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل فرعون کے جبر و اِستبداد کا شکار تھے جس کی وجہ سے الله کے دین کی پیروی ان کے لیے مشکل تھی۔ لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی جہدِ مسلسل کے نتیجے میں وہ حسین دن بھی طلوع ہوا جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر گئے اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اپنے لشکر سمیت اِسی دریا میں غرق ہوگیا۔ اس طرح بنی اسرائیل کو ظلم و استبداد سے نجات اور آزادی ملی فتح و آزادی کی یہ نعمت الله کا فضل اور اس کی رحمت تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے الله کا شکر ادا کرتے ہوئے روزہ رکھا اور بنی اسرائیل نے بھی روزہ رکھا وہ اس دن کو یوم نجات اور یوم آزادی کے طور پر آج تک منا رہے ہیں حضور ﷺ نے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اس دن کو روزہ رکھ کر منایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا

اِمام طحاوی فرماتے ہیں کہ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے موسی علیہ السلام کے فرعون پر غلبہ پا لینے پر الله تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے روزہ رکھا (طحاوي شرح معاني الآثار، رقم : 3209)

یہاں قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر یہود اپنے پیغمبر کی فتح اور اپنی آزادی و نجات کا دن قابلِ تعظیم سمجھ کر اسے منانے کا حق رکھتے ہیں تو مسلمان اپنے نبی ﷺ کا یومِ میلاد قابلِ تعظیم سمجھ کر اُسے منانے کا بہ درجہ اَتم حق رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ خاتم الانبیاء اور سید المرسلین و الانبیاء ہیں۔ آپ ﷺ اللہ کا فضل اور رحمت بن کر پوری انسانیت کو آزادی عطا کرنے اور ہر ظلم و نااِنصافی سے نجات دلانے کے لیے تشریف لائے

حضور نبی اکرم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری مظلوم انسانیت کے لیے نجات اور آزادی کی نوید تھی۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت وہ حسین ترین لمحہ تھا جس کی خوشی پوری کائنات میں منائی گئی۔ آپ ﷺ کی بعثت ایک مومن کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے۔ الله رب العزت نے آپ ﷺ کی بعثت کو امت کے لیے بہت بڑے احسان سے تعبیر فرمایا ہے۔ وہ دن جس میں سید الانبیاء ﷺ کی ولادت ہوئی اور آپ ﷺ کی بعثتِ مبارکہ سے عالم انسانیت کو نواز گیا سب کے لیے تعظیم و تکریم کامستحق ہے۔ ظہورِ قدسی کا وہ عظیم ترین دن اس قابل ہے کہ ہم اس دن عطائے نعمتِ عظمی پر سراپا تشکر بن جائیں، اس کی تعظیم کے لیے اپنے دیدہ و دل فرش راہ کر دیں اور اِسے ہر ممکن جائز طریقے سے والہانہ احترام اور عقیدت و محبت کے جذبات میں ڈوب کرجشن کی صورت میں خوب دھوم دھام سے منائیں

حضور ﷺ کا خود نسبتِ موسیٰ علیہ السلام کے سبب سے دن منانا

مذکورہ بالا اَحادیث سے حضور ﷺ کا میلاد منانے کی ایک اور دلیل بھی اَخذ ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اِس دن کو منایا اور روزہ رکھا۔ اس سے کسی عظیم دن کو منانے کا جواز خود سنتِ مصطفیٰ ﷺ سے مل رہا ہے۔ اور اہلِ ایمان کے لیے یومِ میلادِ مصطفیٰ ﷺ سے بڑھ کر اور کون سا دن عظیم ہوسکتا ہے! لہٰذا یومِ میلاد النبی ﷺ منانا بھی اِتباعِ سنتِ مصطفیٰ ﷺ کے زمرے میں آتا ہے

 یہود یومِ عاشورہ یومِ عید کے طور پر مناتے تھے

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہود اپنا یومِ آزادی یعنی عاشورہ کا دن روزہ رکھ کر مناتے تھے، جب کہ میلادالنبی ﷺ کا دن یومِ عید کے طور پر منایا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ نہیں رکھا جاتا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی مبارک دن کو یومِ مسرت کے طور پر منانا سنت ہے اور اس کو دائرۂ شریعت میں رہتے ہوئے کسی بھی شکل میں منایا جا سکتا ہے۔ اگر یہود یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یوم شکرانہ منانے کو صرف روزہ رکھنے کے عمل تک محدود کرلیا جائے اور اس دن کو روزہ رکھنے کے سوا کسی اور طریقے سے نہ منایا جائے۔ احادیثِ مذکورہ میں اس امر کی طرف کوئی اشارہ موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اس خوشی کے موقع پر روزہ ایک اضافی نیک عمل کے طور پر رکھتے تھے اور وہ یہ دن بہ طور عید مناتے تھے

قبل اَز اِسلام عرب معاشرہ میں یومِ عاشورہ کے موقع پر عید منائی جاتی تھی۔ اگرچہ عربوں کا اس دن عید منانا مختلف وجوہات کی بنا پر تھا۔ جب حضور ﷺ ہجرت کے بعدمدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی بھی اس دن صرف روزہ نہیں رکھتے بلکہ عید بھی مناتے تھے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہے 

امام بخاری الصحیح میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں 

کان يوم عاشوراء تَعُدُّه اليهود عيدًا، قال النبي ﷺ فصوموه أنتم (بخاري، الصحيح، رقم : 1901) 

یوم عاشورہ کو یہود یومِ عید شمار کرتے تھے حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو حکم دیتے ہوئے) فرمایا تم ضرور اس دن روزہ رکھا کرو

امام مسلم نے بھی الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: کان يوم عاشوراء يوما تعظّمه اليهود، وتتّخذه عيدًا، فقال رسول الله ﷺ: صوموه أنتم. (مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، رقم : 1131) 

یہود یوم عاشورہ کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں کو) حکم دیا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھو

امام مسلم نے الصحیح میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ایک اور حدیث بھی روایت کی ہے کان أهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتخذونه عيدا، ويلبسون نساء هم فيه حلیهم وشارتهم. فقال رسول الله ﷺ : فصوموه أنتم (مسلم، الصحيح، رقم : 1131؛ ابو نعيم، المسند المستخرج، رقم : 2575) 

اہلِ خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے اور اسے عید کے طور پر مناتے تھے۔ اس دن وہ اپنی عورتوں کو خوب زیورات پہناتے اور ان کا بناؤ سنگھار کرتے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (مسلمانوں سے) فرمایا : تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ