السلام علیکم ورحمتہ اللہ کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں زید اور ہندہ دونوں میاں بیوی ہیں کچھ گھریلو معاملات کی وجہ سے آپس میں بنتی نہیں تھی ہندہ نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی مگر زیادہ رکھنا چاہتا تھا بات جب نہ بنیں تو جانبین نے فیصلہ کیا کہ دونوں کو الگ کردیا جائے اب کورٹ سے طلاق کے پیپر نکلوائے گئے زید نے اور ہندہ دونوں میں دستخط کیے اس کاغذ میں طلاق کے الفاظ بھی نہیں تھے اور زید کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی زبان سے کبھی بھی طلاق کا لفظ نہیں کہا آیات کے طلاق کونسی پڑی قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا اور علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب جلد از جلد عنایت فرمائیں سائل غلام معین الدین بنارسی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب صورت مستفسرہ میں بر صدق مستفتی طلاق بائن واقع ہوگی اگر چہ پیپر پر طلاق کے الفاظ لکھے نہ تھے اور نہ ہی مرد نے زبان سے طلاق کے الفاظ کہے نہ ہی ارادہ طلاق کیامگر چونکہ جانبین نے طلاق ہی کا فیصلہ کیا تھا جس پر انہوں نے دستخط کیا لہذا اس فیصلہ پر اسکی رضامندی ظاہر ہے لہذا قضاء طلاق واقع ہو جائیگی چنانچہ عالمگیری میں ہے وفی حالۃ مذاکرۃ الطلاق یقع الطلاق فی سائر الاقسام قضاء (ج١ص٣٧٥)
اور بحر العلوم حضرت علامہ مفتی عبد المنان اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ رقمطراز ہیں اگر واقعۃ شوہر نے حاکم کے فیصلے کو تسلیم کر کے دستخط کردیا تو نکاح ٹوٹ گیا(فتاویٰ بحر العلوم ج ٣ص ٢٦)
اور اس سے طلاق بائن واقع ہوگی جیساکہ شامی میں ہے
(ف) الکنایات (لاتطلق بھا) قضاء (الا بنیۃ او دلالۃ الحال)وھی حالۃ مذاکرۃ الطلاق او الغضب بائن (ملخصا ج ٤ص ٥١٦-٥١٩)
اور بہار شریعت میں ہے
کنایہ کے ان الفاظ سے ایک بائن طلاق واقع ہوگی اگر بہ نیت طلاق بولے گئے اگرچہ بائن کی نیت نہ ہوالخ (ج٢ح٨ص١٣٠)
لہذا صورت مسئولہ میں طلاق بائن واقع ہوگی اگرچہ پیپر پر طلاق کے الفاظ لکھے نہ ہوں اگرچہ مرد نے زبان سےالفاظ طلاق نہ بولے ہوں اور اگرچہ نیت بھی نہ ہو کہ مذاکرہ طلاق کے وقت بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ محمد مزمل حسین نوری مصباحی دھان گڑھا کشن گنج بہار
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ