Headlines
Loading...

 


(سئل) کیا فرماتے ہیں علماے اسلام اس مسئلے کے بارے میں کہ کافر سے نکاح پڑھوانا کیسا ہے اور اگر کسی مومن کا نکاح پڑھائے تو کیا نکاح ہو جاے گا؟ 

سائل: محمد شرافت حسین بلرامپوری

(فأجاب) کافر سے نکاح پڑھوانا بلکہ اس کے پاس بیٹھنا بھی معیوب ہے اور مرتد کے پاس بیٹھنا بلکہ دینی ودنیاوی تمام کاموں میں مدد مانگنا ناجائز ہے لیکن اس کا پڑھایا ہوا نکاح منعقد ہوجائے گا کہ یہ بطور وکیل ہے اور وکیل کے لیے اسلام شرط نہیں ہے

قال الإمام مگر (کافر) پڑھائے گا تو نکاح صحیح ہوجائے گا کہ اگر وہ صرف الفاظ ایجاب وقبول کہلوانے والا ہے کہنے والے خود عاقدین یا ان کے اولیاء یا وکلاء جب تو ظاہر کہ اسے عقد سے کوئی علاقہ نہیں تو اس کے کفر واسلام یا بلوغ یا عدمِ بلوغ سے عقد پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور اگر وکیل بھی ہوکہ خود ہی ایجاب یا قبول کرے گا تاہم صحتِ وکالت کے لیے اسلام خواہ بلوغ شرط نہیں عاقل ہونا درکار وہ حاصل ہے (فتاوی رضویہ ١٧٢/١١)

وقال مرتد کو وکیل کرسکتے ہیں اس کی وکالت صحیح ہوجائے گی اگرچہ اس سے میل جول اختلاط حرام ہے رہی شہادت عوام میں دو شخص جن کو گواہی نکاح سے نامزد کیا جاتا ہے وہ اگر دونوں مرتد وہابی تھے مگر جلسے میں اور دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں مسلمان ہیں جنہوں نے معاً ایجاب وقبول سنا اور سمجھا جب تو اگرچہ نکاح صحیح ہوگیا، لوجود الشهود وان کان من سموا شهودا مرتدین (گواہوں کی حاضری کی وجہ سے اگرچہ انھوں نے مرتد گواہوں کو نامز د کیا ہو) اور اگر صرف یہی حاضر وسامع وفاہم تھے یا اور جتنے ہیں وہ بھی ایسے ہی ہیں ایک نصاب مسلمانوں سے پورا نہیں تو نکاح صحیح نہ ہوا فاسد محض ہوا (فتاوی رضویہ ٢١٨/١١)

قال الفقیه الأمجدي جو لوگ غیر مقلد وہابی (اور اس جیسے دیگر مرتد فرقہ کے لوگوں) کو نکاح پڑھانے کے لیے لائے وہ گنہگار ہوئے توبہ کریں کہ اس میں وہابی کی ایک طرح (بغیر صراحت کے، خفیہ طور سے) تعظیم ہے (شیطان کو گھر دعوت دینا ہے) اور اس کی (ایسی غیر صریح) تعظیم ناجائز وگناہ ہے (اور تعظیم صریح کفر) لیکن اس نے جو نکاح پڑھوایا وہ منعقد ہوگیا کہ نکاح خواں حقیقت میں وکیل ہوتا ہے اور صحت وکالت میں اسلام شرط نہیں ہے فتاوی عالمگیری جلد سوم ص ٤٣٩ (کتاب الوکالة الباب الاول) میں ہے تجوز وكالة المرتد بأن وكل مسلم مرتدا وكذا لو كان مسلما وقت التوكيل ثم ارتد فهو على وكالته إلا أن يلحق بدار الحرب فتبطل وكالته كذا في البدائع (الصنائع کتاب الوکالة فصل في شرائط الوكالة ١٩/٦ فتاوی فیض الرسول ٥٥٢/١ ت مسلمان نے کسی مرتد کو وکیل بنایا مرتد کی وکالت جائز ہوگی، اور یوں ہی کسی مسلمان کو وکیل بنایا پھر وہ وکیل مرتد ہوگیا تو اس کی وکالت باقی رہے گی مگر وہ دارالحرب بھاگ جائے تو پھر اس کی وکالت باطل ہوجائے گی بدائع میں اسی طرح ہے)

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ