(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے یہاں کے ایک شخص کہتا ہے کہ قرآن مجید بتیس پاروں میں نازل ہوا لیکن صحابہ کرام نے تیس ہی پاروں میں لکھا اور دو پارے جمع نہیں کیے۔ کیا یہ بات درست ہے؟ میں نے اپنے علم کے مطابق اسے سمجھایا لیکن وہ شخص ماننے کے لیے تیار نہیں۔ آپ علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس کا مکمل جواب عنایت فرمائیں اور بتائیں کہ اس طرح کہنے والوں پر شریعت کا کیا حکم ہے؟
(جواب) صحابہ کرام کے زمانے میں قرآن پاروں میں تقسیم نہ تھا بلکہ سورتیں تھیں جو شخص یہ کہتا ہے کہ قرآن جو ہمارے پاس ہے اس میں کمی بیشی ہے تو وہ کافر ہے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ. (سورۃ القیامة، ١٧) بیشک اس کا محفوظ کرنا اور پڑھنا ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ. (سورۃ الحجر، ٩) بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ