Headlines
Loading...


(مسئلہ) خطبہ جمعۃ المبارک کے وقت سلام کرنا کیسا؟

(الجواب) مکروہ تحریمی گناہ ہے اس کا جواب دینا بھی واجب نہیں بلکہ اسی کی طرح ہے امام ابن نجیم عليه رحمة العظيم فرماتے ہیں أما وقت الخطبة فالكلام مكروه تحريما، ولو كان أمرا بمعروف أو تسبيحا أو غيره كما صرح به في الخلاصة وغيرها وزاد فيها أن ما يحرم في الصلاة يحرم في الخطبة من أكل وشرب وكلام (بحر الرائق ٢٧٢/٢ خطبہ کے وقت کلام مکروہ تحریمی ہے خواہ امر بالمعروف یا تسبیح یا اس کی مثل ہو جیسا کہ خلاصہ وغیرہ میں اس پر تصریح ہے. اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ جو کام نماز میں حرام ہے خطبہ کے وقت بھی حرام ہے جیسے کھانا پینا کلام کرنا)

بدائع میں ہے وكذا كل ما شغل عن سماع الخطبة من التسبيح والتهليل والكتابة ونحوها بل يجب عليه أن يستمع ويسكت وأصله قوله تعالى {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا الأعراف ٢٠٤} قيل نزلت الآية في شأن الخطبة أمر بالاستماع والإنصات ومطلق الأمر للوجوب (بدائع الصنائع ٢٠٠/٢ اسی طرح ہر وہ کام جو خطبہ سننے کے علاوہ کسی کام میں مشغول کر دے، منع ہے جیسے تسبیح وتہلیل کتابت کرنا بلکہ واجب ہے کہ خاموش رہے اور خطبہ سماعت کرے اس مسئلہ کی اصل یہ آیت ہے {اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو الأعراف ٢٠٤} کہا گیا کہ یہ شان خطبہ میں نازل ہوئی اس میں سننے اور غور کرنے کا حکم ہے اور مطلق حکم، وجوب کا فائدہ دیتا ہے)

اسی میں ہے رد السلام في هذه الحالة ليس بفرض؛ لأنه يرتكب بسلامه مأثما فلا يجب الرد عليه كما في حالة الصلاة. (بدائع الصنائع، ٢٠١/٢ حالت خطبہ میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہے کیونکہ اس سے فاعل گنہگار ہوتا ہے تو اس پر جواب دینا واجب نہیں جس طرح حالت نماز میں سلام کا جواب دینا واجب نہیں) والله تعالی اعلم

کتبه: ندیم ابن علیم المصبور العینی 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ