Headlines
Loading...
یہ کہنا کہ ابلیس اور آدم دونوں نے خدا کی نافرمانی کی؟

یہ کہنا کہ ابلیس اور آدم دونوں نے خدا کی نافرمانی کی؟


(مسئلہ) اس عبارت کا رد فرمائیں ابلیس نے سجدہ نہ کرکے خدا کی نافرمانی کی اور آدم علیہ السلام نے بھی گیہوں کھا کر یہ جرم کیا پھر دونوں کو سزا بھی دی گئی آدم کو جنت سے نکالا گیا ابلیس کو فرشتوں کی جماعت سے جرم وسزا دونوں برابر ہوئے بعد میں آدم عليه السلام نے توبہ کی ابلیس نے نہ کی معلوم ہوا کہ آدم عليه السلام معصوم نہ تھے

(الجواب) ابلیس کو جو حکم دیا گیا (اسجدوا لآدم آدم کو سجدہ کرو) صریح اثبات میں تھا اس کو فورا بجا لانا فرض تھا ابلیس نے اس کا انکار کیا اور (انا خیر منه) کہہ کر آدم عليه السلام کی گستاخی کی جس کے سبب کافر ہوا

آدم عليه السلام کو جو حکم دیا گیا (لا تقربا ھذا الشجرۃ اس درخت کے قریب بھی نہ جانا) نہی میں تھا اور بے شک آدم عليه السلام اس درخت کے قریب نہ گئے یا حکم کی تفصیل بھول گئے جیسا کہ باری تعالی نے فرمایا ولقد عهدنا إلى آدم من قبل فنسي ولم نجد له عزما (اور بیشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا) بلکہ صرف وہ پھل کھائے جو آپ کی بیوی نے دیے وہ بھی نافرمانی کے عزم سے نہیں تو پھر کیسی کفری جرات اور نری جہالت کہ کوئی آدم علیہ السلام کو الله عزوجل کا نافرمان کہے اہل ایمان اتنا سمجھیں کہ یہ لغزش اجتہادی اتنی تھی کہ آپ علیہ السلام نے درخت کے قریب نہ جاتے ہوئے پھل کو کھانا جائز جانا یا جانا کہ قریب جا کر کھانا اگرچہ حرام ہے لیکن قریب نہ جا کر پھل کھانے کی نہی جس کا احتمال اس حکم میں ممکن ہے تنزیہی ہے حکم نہی دو قسم ہے تنزیہی تحریمی اور تنزیہی پر عمل گناہ صغیرہ بھی نہیں الله عزوجل کے حکم پر، غور کرو تو سینہ کشادہ ہو (یا آدم اسکن انت وزوجك الجنة وکلا منها رغدا حیث شئتما اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے) حکم کے اس جزء سے آدم عليه السلام نے جنت کی ہر غذا کھانے کا جواز جانا (ولا تقربا ھذا الشجرۃ اور اس پیڑ کے پاس نہ جانا) اور اس حکم سے آدم عليه السلام نے درخت کے قریب نہ جانے کی حرمت جانی اس حکم سے قریب نہ جا کر پھل کھانے کی یا اسی نوع کے دیگر اشجار سے پھل کھانے کی حرمت قطعی ثابت نہیں ہوتی بلکہ حکم اس بارے میں ظن کا فائدہ دیتا ہے کہ جب قریب جانا منع ہے تو پھل کھانا بھی منع ہوگیا اس کی دیگر انواع سے بھی منع کیا ہوگا اور پہلے حکم سے مستفاد ہے کہ جب ہر غذا کی بلا ٹوک اجازت دی تو اس درخت کا پھل کھانے کی اجازت ہے. منع کرنا صرف قریب جانے یا اس خاص نوع سے کیا ہے ان دو فیصلوں کے بیچ آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی یا اس تفصیل پر آگاہ تھے پھر بھلا دیے گئے اس لغزش کا اجتہادی ہونا ظاہر ہے جب یہ خطائے اجتہادی ہے تو پھر معصیت کیسی؟ معصیت نہیں تو آدم عليه السلام غیر معصوم کیسے؟ ہاں مومنین کو بڑی تکالیف معمولی لغزشوں پر بھی دی جاتیں ہیں یہ سزا نہیں آزمائش ہوتی ہے الله عزوجل بے عقلوں کو اسلام سمجھنے کی عقل دے فرمایا نبی کریم ﷺ نے لو كان المؤمن في جحر ضب لقيض الله له ما فيه من يؤذيه (شعب الإیمان م ٩٣٣٤ اگر مؤمن گوہ (ایک جانور) کے بل میں چلا جائے وہاں بھی الله عزوجل اس کے لیے ایذا رساں پیدا کرے گا) سلمہ بن کہیل رحمة الله تعالى علیه فرماتے ہیں لو كان المؤمن على قصبة في البحر لقيض الله له من يؤذيه (المصنف م ٣٥٢٤٢ اگر مؤمن سمندر میں کسی لکڑی پر ہو وہاں بھی الله عزوجل اس کے لیے ایذا رساں پیدا کرے گا)

امام نعیم الدین مرآد آبادی قدس سرہ فرماتے ہیں حضرت آدم کو خیال ہوا کہ لَا تَقْرَبَا کی نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں کیونکہ اگر وہ تحریمی سمجھتے تو ہرگز ایسا نہ کرتے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی (خزائن العرفان البقرۃ ٣٦)

امام نعیمی فرماتے ہیں غلط فہمی اور لغزش دوسری چیز ہے آدم علیه السلام سے لغزش ہوئی نہ کہ گناہ ہوا (نور العرفان النحل ١٠٠) والله تعالی اعلم

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ