بروز قیامت الله اپنی پنڈلی سے پردہ ہٹائے گا
(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ایک شخص کہتا ہے کہ ہر بندے میں رب موجود ہے اور وہ مندرجہ ذیل اس پر دلائل دیتا ہے (١) مسلم شریف کی حدیث شریف کہ آدم علیہ السلام کو الله نے اپنی صورت پر پیدا فرمایا (٢) بروز قیامت الله اپنی پنڈلی سے پردہ ہٹائے گا (٣) الله شاح رگ سے قریب ہے اُن صاحب کا یہ بھی ماننا ہے کہ نماز ضروری نہیں کہ پڑی جائے نہ ہی داڑھی ضروری ہے یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ جو کرنا ہے اچھا یا بُرا وہ میرے سائیوں نے کرنا ہے سائیوں سے مراد اس کے پیر ایسے عقائد والے کا شرعی حکم کیا ہے
(الجواب) یہ شخص مرتد ہے اس پر تجدید ایمان فرض بیوی والا ہو تو تجدید نکاح کرے بالفرض کسی کا مرید ہو تو تجدید بیعت بھی
قال الإمام رحمه الله ورحمنا به الله عزوجل حصے اور ٹکڑے اور کسی کے ساتھ متحد ہو جانے یا کسی شئے میں حلول فرمانے سے پاک ومنزہ ہے حضور سید عالم ﷺ خواہ کسی شے جزء ذات الٰہی خواہ کسی مخلوق کو عین ونفس ذات الٰہی ماننا کفر ہے (فتاوی رضویہ ٦٦٦/٣٠) وقال عليه رحمة ذو الجلال وحدتِ وجود حق ہے اور حلول واتحاد کہ آج کل کے بعض متصوفہ (بناوٹی صوفی) بکتے ہیں صریح کفر ہے (فتاوی رضویہ ٦١٦/٢٩ امور عشرین امر ١٩)
امام غزالی فرماتے ہیں وهو قريب من كل موجود إذ لايماثل قربه قرب الأجسام كما لا تماثل ذاته ذات الأجسام وأنه لا يحل في شيء ولا يحل فيه شيء تعالى عن أن يحويه مكان كما تقدس عن أن يحده زمان بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو الآن على ما عليه كان وأنه بائن عن خلقه بصفاته ليس في ذاته سواه ولا في سواه ذاته وأنه مقدس عن التغير والانتقال لا تحله الحوادث ولا تعتريه العوارض (احیاء علوم الدین ١٢١/١ وہ ہر موجود سے قریب ہے جس طرح اس کی ذات اجسام کے مانند نہیں اس کا قریب ہونا بھی ایک جسم کا دوسرے جسم سے قریب ہونے جیسا نہیں نہ ہی وہ کسی شئے میں حلول کیے ہوئے ہے نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کیے ہوئے ہے جس طرح کوئی زمانہ اسے نہیں گھیر سکتا اسی طرح وہ کسی مکان بھی میں نہیں سما سکتا بلکہ وہ تخلیق زمان ومکان سے قبل جیسا تھا اب بھی اسی طرح ہے. اپنے جمیع صفات سمیت مخلوق سے ممتاز نہ تو اس کی ذات میں کوئی دوسرا ہے نہ ہی وہ کسی دوسرے میں وہ بدلنے منتقل ہونے حوادث وعوارض کے لاحق ہونے سے پاک ہے)
شرح مقاصد میں ہے طريقة أهل السنة أن العالم حادث والصانع قديم متصف بصفات قديمة ليست عينه ولا غيره وواحد لا شبه له ولا ضد ولا ند ولا نهاية له ولا صورة ولا حد ولا يحل في شيء ولا يقوم به حادث ولا يصح عليه الحركة والانتقال ولا الجهل ولا الكذب ولا النقص وأنه يرى في الآخرة. (شرح المقاصد التفتازانی ٤٦٤/٣ اہل سنت وجماعت کا راستہ یہ ہے کہ بے شک عالم حادث ہے اور صانع عالم قدیم ایسی صفات قدیمہ سے متصف ہے جو نہ اس کا عین ہیں نہ غیر وہ واحد ہے نہ اس کی کوئی مثل ہے نہ مقابل نہ شریک نہ انتہا نہ صورت نہ حد نہ وہ کسی میں حلول کرتا ہے نہ اسکے ساتھ کوئی حادث قائم ہوتا ہےنہ اس پر حرکت صحیح نہ انتقال نہ جہالت نہ جھوٹ اور نہ نقص اور بیشک آخرت میں اس کو دیکھا جائے گا)
امام نابلسی فرماتے ہیں لا يحل تعالى في شيء ولا يحل شيء فيه تعالى لأن الوجود لا يحل في العدم ولا العدم يحل في الوجود (تحريك الإقليد في فتح باب التوحيد ص٤٥٩ نہ ہی الله سبحانه تعالی کسی شئے میں حلول کیے ہوئے ہے نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کیے ہوئے ہے کیونکہ موجود معدوم میں اسی طرح معدوم موجود میں نہیں سما سکتا)
قال الإمام السيوطي رحمة الله تعالى علیه قال القاضي عياض في الشفا ما معناه أجمع المسلمون على كفر أصحاب الحلول ومن ادعى حلول الباري سبحانه في أحد الأشخاص كقول بعض المتصوفة والباطنية والنصارى والقرامطة قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام في قواعده الكبري ومن زعم أن الإله يحل في شيء من أجساد الناس أو غيرهم فهو كافر (الحاوی للفتاوی ١٣٦/٢ قاضی عیاض رحمة الله تعالى علیه نے شفا شریف میں فرمایا جس کا معنی ہے کہ اصحاب حلول کے کفر پر مسلمانوں کا اجماع ہے جو دعوی کرتے ہیں کہ کسی شخص میں حلول باری تعالی کا جیسے بعض جاہل صوفیوں باطنیہ نصاری اور قرامطہ کا قول ہے اور امام عز الدين بن عبد السلام قواعد کبری میں فرماتے ہیں جس کا یہ گمان ہو الله تعالی کسی شخص یا چیز میں داخل ہے وہ کافر ہے)
١. دلیل اول سے کس طرح اس مرتد نے دلیل پکڑی؟ اس کا اصل معنی الله تعالی کا آدم عليه السلام کو اپنی پسندیدہ صورت پر پیدا کرنا ہے. معاذ الله ظاہری معنی مراد نہیں الله عزوجل چہرے سے پاک ہے اور دلیل اول ودوم ظاہری معنی سے بھی اس مرتد کا یہ عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کہ معاذ الله الله عزوجل اپنے بندوں میں حلول کیے ہوئے ہے اپنی صورت کہنا شرف کے لیے ہے یہ اسی طرح ہے جیسے عیسی علیہ السلام کو الله کی روح کہنا جب کہ در حقیقت ان کی روح، الله کی نہیں بلکہ الله کی جانب سے تھی اسی طرح حدیث میں بھی صورته سے مراد حقدہ قریب ہے جس میں خون جاری ہوکر بدن کے ہر حصہ میں پہنچتا ہے پھر ہم انسان سے کیسے غافل ہوسکتے ہیں خیال رہے کہ رب تعالیٰ مکانی قرب سے پاک ہے کیونکہ وہ مکان و جگہ سے پاک ہے یہاں علم وقدرت مراد ہے (خزائن العرفان نور العرفان تفسیر سورۃ ق، الآیة ١٦)
الله عزوجل قرآن مقدس میں بارہ دفعہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ(نماز قائم کرو) فرما کر نماز کی فرضیت کا اعلان کرتا ہے اور یہ پلید نماز کو غیر ضروری سمجھتا ہےبلا شبہ صرف اتنا ہی اس کے مرتد ہونے کو کافی ہے فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ (اس سے زیادہ ظالم کون جو الله کی آیتوں کو جھٹلائے اور ان سے منہ پھیرے عنقریب وہ جو ہماری آیتوں سے منہ پھیرتے ہیں ہم انہیں بڑے عذاب کی سزا دیں گے بدلہ ان کے منہ پھیرنے کا) داڑھی شعار اسلام سے ہے اسے غیر ضروری سمجھنا گمراہی تفضیل کے لیے امام اہل سنت احمد رضا خان علیه رحمة الرحمن کی کتاب لمعة الضحی فی اعفاء اللحی کا مطالعہ فرمائیں والله تعالی اعلم
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ