Headlines
Loading...
ظلم کی تعریف اور اسکے اقسام اور کس ظلم کا جواب دینا چاہئے؟

ظلم کی تعریف اور اسکے اقسام اور کس ظلم کا جواب دینا چاہئے؟


(مسئلہ) ظلم کی تعریف اور ظلم کی اقسام اور کس ظلم کا جواب دینا چاہئے؟

(الجواب) امام طبری رازی قرطبی نسفی بغوی رحمة الله تعالى علیهم فرماتے ہیں أصل الظلم وضع الشيء في غير موضعه تفسیر الطبری ٢٧٢/١ تفسیر الرازی ٢١٤/٨ الجامع لأحکام القرآن ١١٠/١ مدارك التنزیل ٧٤/٢ معالم التنزیل ٨٣/١ ظلم کا اصل معنی کسی شے کو غیر مناسب (جہاں نہ تھی اس) جگہ پر رکھنا امام نعیم الدین فرماتے ہیں ظلم کے معنی ہیں کسی شے کو بے محل وضع کرنا (خزائن العرفان ص ١٥) امام نعیمی فرماتے ہیں ظلم کے معنی حد سے نکلنا یا کسی کو بے موقع استعمال کرنا ہے (تفسیر نعیمی ٢٥٥/١) اور اس کی تین انواع ہیں الأول بین العبد وربه وأعظمه الشرك والکفر والنفاق (وہ ظلم جو اس سبب سے جو بندے اور رب کے درمیان ہے پیدا ہو جیسے شرک کفر اور نفاق) الثاني ظلم بینه وبین الناس (بندے اور لوگوں کے مابین ظلم) الثالثة ظلم بینه وبین نفسه (بندے کا خود پر ظلم کرنا) (المفردات للراغب الأصفهاني ص ٣١٦ تاج العروس ٣٣/٣٣ عمدۃ الحفاظ ١٠/٣ روح المعاني ٢٩٠/٧) ان انواع میں سے کوئی بھی جائز نہیں اور آپ کے زاویہ سے کسی شخص کا ظلم کرنا بھی منقسم ہے 

١. وہ آپ پر ظلم کرے

٢. وہ آپ کے سامنے کسی پر ظلم کرے

٣. خود پر ظلم کرے

٤. وہ کفر یا شرک یا نفاق پر قائم ہو

یہ ظلم کی چار قسمیں ہوئی جو وہ آپ کے سامنے ظاہر کر سکتا ہے اس کا الزام آپ پر نہیں اور چار قسمیں اس کے مثل وہ ہوئیں جس کا سبب آپ ہیں. مثلا آپ کی وجہ سے خود پر ظلم کرے یا آپ کے سبب کفر میں مبتلا ہو

ان چاروں کا جواب ہے پہلے ظلم کا جواب معاف کرنا افضل ہے پھر صبر کرنا پھر زبان سے روکنا پھر طاقت سے روکنا

قال رسول الله ﷺ تعفو عمن ظلمك وتصل من قطعك (شعب الایمان عن علی رضی الله عنه م ٧٥٨٤ ٧٧٢١ عن انس م ٧٥٨٥ عن عقبة بن عامر م ٧٥٨٧ ٧٧٢٣ عن ابی الحسین م ٧٩٤٧ عن ابی ھریرۃ م ٧٧٢٥ عن عائشة م ٧٧٢٤ جو تم پر ظلم کرے اس سے درگزر کرو اور جو تم سے قطع تعلق کرے تو اس سے تعلق جوڑو) وقال الصلوۃ والسلام لن ينال عبد صريح الإيمان حتى يصل من قطعه ويعفو عمن ظلمه ويغفر لمن شتمه ويحسن إلى من أساء إليه (مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا عن ابی ھریرۃ ص ٣٠ کوئی بندہ ہرگز صریح ایمان کو نہیں پاسکتا یہاں تک کہ وہ اس تعلق جوڑے جو اس سے قطع تعلق کرے اور معاف دے اس شخص کو جو اس پر ظلم کرے اور اس کو بخش دے جو اس کو گالی دے اور اچھا سلوک کر اس شخص سے جو اس کے ساتھ بد سلوکی کرے

اور دوسرے اور تیسرے کا جواب طاقت سے یہ نہ ممکن ہو تو زبان سے بہتر ہے لقوله صلی الله تعالی عليه وسلم من رأی منکم منکرا فاستطاع أن يغيره بيده فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلک أضعف الإيمان (صحیح مسلم م ٧٨ (٤٩) سنن ابن ماجہ م ١٢٧٥ ٤٠١٣ سنن الترمذی م ٢١٧٢ تم میں سے جو بھی برا کام دیکھے اور اسے چاہئے کہ زور بازو سے اسے مٹادے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل ودماغ سے کام لے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے)

آخر کا جواب دینا فرض عظیم ہے فرمایا ﷺ نے اذا ظهرت الفتن اوقال البدع فلیظهر العالم علمه ومن لم یفعل ذلك فعلیه لعنة الله والملئکة والناس اجمعین لا یقبل الله منه صرفا ولا عدلا (الجامع لاخلاق الراوی وآداب السامع م ۱۳۶۵ الشریعۃ للآجری م ٢١٢٩ (١٣٣٦) الفردوس بماثور الخطاب م ١٢٧١ جب فتنے یا فرمایا بدمذہبیاں ظاہر ہوں تو اہلِ علم کو اپنا علم ظاہر کرنا چاہیے اور جو ایسا نہ کرے اس پر الله اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی لعنت الله نہ اس کا فرض قبول کرے نہ نفل) وقال الصلوۃ والسلام إن الناس إذا رأوا المنكر فلم ينكروه أوشك أن يعمهم الله بعقابه (مسند احمد م ١ ٥٣ سنن ابن ماجہ م ٤٠٠٥ اسنادہ صحيح جب لوگ فعل منکر ہوتے ہوئے دیکھیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو عنقریب ان سب کو الله کا عذاب گھیر لے گا) اور فرمایا والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنکر أو ليوشکن الله أن يبعث عليکم عقابا منه ثم تدعونه فلا يستجاب لکم (جامع الکبیر للترمذی م ٢١٦٩ قسم اس کی جس کی قدرت میں میری جان ہے تم لوگوں اچھے کاموں کو حکم دو برے سے منع کرتے رہو ورنہ قریب ہے کہ الله عزوجل تمہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا پھر تمہاری کوئی دعا قبول نہ ہوگی

وقال عليه السلام إن الله لا يعذب العامة بعمل الخاصة حتى يروا المنكر بين ظهرانيهم وهم قادرون على أن ينكروه فإذا فعلوا ذلك عذب الله العامة والخاصة (مسند احمد م ١٧٧٢٠ الله مخصوص لوگوں کی وجہ سے عوام کو عذاب نہیں دیتا ہاں اگر وہ کھلے عام نافرمانی کرنے لگیں اور وہ روکنے پر قدرت کے باوجود انہیں نہ روکیں تو پھر الله عزوجل خواص اور عوام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے) والله تعالی اعلم 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ