کان لال کرامت پے لاکھوں سلام کی تشریح
(مسئلہ) دور ونزدیک کے سننے والے وہ کان+ کان لعل کرامت پہ لاکھوں سلام اس شعر میں کان لعل سے کیا مراد ہے؟
(الجواب) کانِ لعلِ کرامت یعنی وہ کان (گوش اقدس) جو جواہرِ کرامت کے کان (کھان معدن یا منبع) ہیں یہ صنعت تجنیس تام ہے اشارہ گوش اقدس کا بکثرت ظہور کرامت سے امت کو فیضیاب کرنا ہے اور لعل کہہ کر گوش اقدس کی ظاہری خوبی کی طرف اشارہ کیا ہے امیر المومنین عائشہ صدیقہ رضی الله عنها فرماتی ہیں تخرج الأذن اليسرى من بين غديرتين تكتنفانها ينظر من كان يتأملهما من بين تلك الغدائر كأنهما توقد الكواكب الدرية بين سواد شعره (دلائل النبوۃ لأبی نعیم ص ٦٣٨ تاریخ دمشق ١٨٥/٢ ورواہ أبو بكر بن أبي خيثمة فى تاریخه آپ کے گوش مبارک دونوں طرف بالوں کے درمیان سے ابھرے ہوئے یوں لگتے جیسے سیاہ آسمان میں چمکتے ستارے ہوں)
ابوذر رضی الله عنه راوی فرمایا حضور پرنور صلی الله تعالی عليه وآله وسلم نے إني أرى ما لا ترون وأسمع ما لا تسمعون أطت السماء، وحق لها أن تئط ما فيها موضع أربع أصابع إلا وملك واضع جبهته ساجدا لله، والله لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا وما تلذذتم بالنساء على الفرش ولخرجتم إلى الصعدات تجأرون إلى الله لوددت أني كنت شجرة تعضد (سنن الترمذی ٢٣١٢ سنن ابن ماجہ م ٤١٩٠ میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کا حق ہے کہ چرچرائے قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ آسمانوں میں چار انگل جگہ نہیں ہے مگر فرشتہ وہاں اپنی پیشانی رکھے ہوئے الله کو سجدہ کرتے ہوئے الله کی قسم اگر تم وہ چیزیں جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہسنتے بہت روتے، بیویوں سے بستروں پر لذت حاصل نہ کرتے اور الله کی پناہ لیتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل جاتے اسی حدیث کو ابو نعیم نے علاء بن سعد الساعدی اور حکیم بن حزام سے ابن مردویہ نے انس رضی الله تعالى عنهم سے روایت کیا (معرفة الصحابة م ١٨٩١ ٥٥١٧ در المنثور ٢٥٦/٤)
حضرت عائشہ فرماتی ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے يا عائشة هذا جبريل يقرأ عليك السلام قالت قلت وعليه السلام ورحمة الله ترى ما لا نرى (صحیح البخاری م ٦٢٠١ ٦٢٤٩ اے عائشہ یہ حضرت جبریل ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں ام المومنین عرض گزار ہوئیں ان پر سلام اور الله کی رحمت اور بولیں حضور وہ دیکھتے تھے جو میں نہ دیکھتی تھی)
عن أبي أيوب رضی الله تعالى عنه قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما غربت الشمس فسمعصوتا فقال يهود تعذب في قبورها (صحیح البخاری م ١٣٧٥ سنن أبی داود عن أنس رضی الله عنه م ٤٧٥١ ابو ایوب انصاری رضی الله تعالى عنه فرماتے ہیں غروب شمس کے بعد حضور ﷺ باہر نکلے تو ایک آواز سنی تو فرمایا یہودیوں کو قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے)
عن أبي هريرة قال كنا مع رسول الله ﷺ، إذ سمع وجبة فقال النبي ﷺ تدرون ما هذا؟ قال قلنا الله ورسوله أعلم قال هذا حجر رمي به في النار منذ سبعين خريفا فهو يهوي في النار الآن حتى انتهى إلى قعرها(صحیح مسلم م ٢٨٤٤ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں ہم خدمت رسول ﷺ میں حاضر تھے. آپ نے کسی چیز کے گرنے کی آواز سنی تو فرمایا جانتے ہو یہ کس چیز کی آواز ہے؟ عرض گزار ہوئے الله ورسوله أعلم فرمایایہ وہ پتھر ہے جسے ستر سال پہلے جہنم میں پھینکا گیا، وہ گرتا رہا یہاں تک کہ اب آخر تک پہنچ گیا)
اسی طرح جبریل علیه السلام آپ کی خدمت میں حاضر تھے تو ایک آواز آسمان کی طرف سے سنی فرمایا هذا باب من السماء فتح اليوم لم يفتح قط إلا اليوم (صحیح مسلم م ٨٠٦: یہ آسمان کا دروازہ ہے جسے آج کھولا گیا آج سے پہلے کبھی نہ کھولا گیا)
ام المؤمنین میمونہ رضی الله تعالى عنه فرماتی ہیں يا رسول الله سمعتك تقول في متوضئك لبيك لبيك ثلاثا نصرت نصرت ثلاثا كأنك تكلم إنسانافهل كان معك أحد؟ فقال هذا راجز بني كعب يستصرخني (معجم الصغیر للطبرانی م ٩٦٨ یا رسول الله میں کے سنا کہ آپ نے تین مرتبہ لبیک پھر تین دفعہ نصرت (تو مدد کیا گیا) جیسے آپ کسی انسان سے گفتگو فرما رہے ہوں کیا آپ کے پاس کوئی تھا؟ فرمایا یہ راجز (عمرو بن سالم خزاعی) فریاد کر رہا تھا. (وہ مکہ مکرمہ میں تھا اور آپ مدینہ منورہ میں)
یہ سب روایات دور سے سماعت کرنے کے متعلق ہے جبکہ آپ ﷺ مستقبل کی آوازوں کو بھی سن لیتے جیسا کہ مشہور ہے کہ آپ نے حضرت بلال کے قدموں کی آہٹ اور حارثہ بن نعمان کی قرأت سنی جب معراج کو تشریف لے گئے (صحیح البخاری م ١١٤٩ مسند أحمد، م ٢٤٠٨٠)
یہ ہی نہیں بلکہ آپ آوازوں کو دیکھ بھی لیتے عبد الله ابن اوفی فرماتے ہیں ہم رسول الله ﷺ کے پیچھے نماز ایک شخص آیا اور بلند آواز کہا اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا. جب نبی کریم ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ بلند آواز والا کون ہے ؟ بتایا گیا یا رسول الله ﷺ وہ یہ ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا والله لقد رأيت كلامك يصعد في السماء حتى فتح باب فدخل فيه (مسند احمد م ١٩١٣٤ ١٩١٤٨ والله میں نے دیکھا کہ تمہارا کلام آسمان پر چڑھ گیا یہاں تک کہ ایک دروازہ کھل گیا اور وہ اس میں داخل ہوگیا)
نبی کریم ﷺ کا پتھروں اور درختوں کا کلام سننا اونٹ گوہ اور ہرنی کا کلام سننا جنات اور فرشتوں کا کلام سنا یہاں تک کہ الله عزوجل کا کلام سننا یہ سب سماعت مصطفی ﷺ پر دال مشہور روایات ہیں لہذا صرف ذکر پر اکتفا کیا ہے
امام حلیمی پھر امام رازی نبی کریم ﷺ کی قوت سماعت کے متعلق فرماتے ہیں فكان عليه السلام أقوى الناس في هذه القوة لقوله أطت السماء وحق لها أن تئط ما فيها موضع قدم إلا وفيه ملك ساجد لله تعالى وسمع أطيط السماء الخ (تفسير الرازي ٢٢/٨) نبی کریم ﷺ کی سماعت تمام انسانوں سے زیادہ قوی تھی (نقل حدیث ترمذی اور حدیث جس میں ذکر ہے جہنم میں پتھر کی آواز کی سماعت کا)قتادہ فرماتے ہیں وإن الله يريه ما لا ترون ويسمعه ما لا تسمعون (در المنثور ٢٠٤/٣ قتادہ رحمة الله عليه فرماتے ہیں الله تعالی اپنے محبوب جو دکھاتا ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے اور وہ سناتا ہے جو ہم نہیں سن سکتے) والله تعالی اعلم
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ