Headlines
Loading...


(سئل) علمائے کرام کی بارگاہ میں میرے کچھ سوالات ہیں ان کے جوابات عنایت فرمائیں

١. ہم جانتے ہیں جو عورت غیر محرم ہے اسے دیکھنا چھونا یہ سب منع ہے تو اگر کسی کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو کیا اس کا شوہر اسے انتقال کے بعد دیکھ سکتا ہے؟ غسل دے سکتا ہے؟ اس عورت کو جب قبر میں اتارا جائے تو کون اتارے اس کے بچے یا اس کا بھائی؟ اگر یہ سب کوئی نہ ہو تو کیا غیر محرم مرد اس عورت کو اتار سکتے ہیں؟ ہمارے علاقے میں ایسا ہوتا یے کہ بیوی کسی کی ہے اتار کوئی اور رہا ہے بیٹی کسی اور کی ہے اتار کوئی اور رہا ہے تو کیا یہ سب درست ہے؟

٢. اگر کوئی شخص انتقال ہوجائے تو اسے کتنی دیر تک رکھنا چاہیے؟ 

٣. ایک شخص ایسا ہے جو مہینہ دس ہزار روپیہ کماتا ہے مگر پھر بھی لوگوں سے جھوٹ بول کر پیسہ مانگتا ہے یہ کہتا ہے کہ فلاں کی بیٹی کی شادی ہے اس میں آپ مدد کریں یا اور کچھ اور اس پیسے سے اپنی بیٹی کے ضروریات کے سامان اکھٹا کرتا ہے زیورات بناتا ہے اور دیگر چیزیں تو ایسا کرنا کہاں تک درست ہے؟

(الجواب) دیکھ سکتا ہے لیکن شوہر عورت کے بدن کو بعد انتقال ہاتھ نہیں لگا سکتا لانقطاع النکاح بالموت لہذا غسل نہیں دے سکتا اُسے چاہئے کہ کسی سمجھ والی لڑکی یا لڑکے کو نہلانے کا طریقہ بتائے اور اپنے سامنے اُس سے نہلوائے، یا کوئی اور عورت اگرچہ اُجرت پر ملے اس سے غسل دلائے اور اگر کچھ ممکن نہ ہوتا تو محرم ہاتھوں سے اور شوہر اپنے ہاتھوں میں کپڑے کی تھیلیاں چڑھا کر اُس کے چہرے اور کہنیوں تک ہاتھوں کا تیمم کرا دے یہ بھی موجود نہ ہو تو مجبورا کوئی غیر محرم رشتے دار یہ بھی نہ ہو تو اجنبی پرہیز گار ہاتھوں میں تھیلیاں پہن کر تیمم کرائے کلائیوں کی طرف نظر نہ کرے کما قال الإمام أحمد رضا خان عليه رحمة الرحمن فی فتاواہ (١٦٦/٩ ٢٣٤/٢) قبر میں محارم اتاریں یہ نہ ہو تو شوہر یہ بھی نہ ہو تو غیر محرم رشتے دار یہ بھی نہ ہو مجبورا پرہیز گار اجنبی. بیٹے ہی اتاریں یا بھائی ہی اتارے ایسا ضروری نہیں ہے جو محرم پرہیز گار ہے وہی مقدم ہے والله تعالی اعلم

٢ دفن میں تعجیل سنت ہے لہذا بلاضرورت نہ رکیں اور اگر کوئی ضرورت شدیدہ شرعیہ ہے تو تاخیر کی إجازت ہے لیکن جسم خراب ہونے کا اندیشہ ہو اس سے پہلے دفن کر دیں فرمایا نبی کریم ﷺ نے أسرعوا بالجنازة فإن  كانت صالحة قربتموها إلى الخير وإن كانت غير ذلك شر تضعونه عن رقابكم (صحیح البخاری م ١٣١٥ صحیح مسلم م ٩٤٤ جنازہ میں جلدی کرو اگر وہ صالح ہے تو اسے خیر کی طرف جلدی پہلے پہنچا رہے ہو اوراس کے سوا یعنی بد ہے تو اسے تم اپنی گردن سے جلدی اتار رہے ہو) اور فرمایا صلى الله عليه وسلم إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره(راوه الطبراني عن ابن عمر بإسناد حسن معجم الكبير م ١٣٦١٣ جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے نہ روکو اور جلدی دفن کو لے جاؤ) اور فرمایا ياعلي ثلاث لا  تؤخرها الصلاة إذا آنت والجنازة إذا حضرت والأيم إذا وجدت لها كفئا (سنن الترمذی م ١٧١ اے علی تین چیزوں میں دیر نہ ہو نماز جب اس کا وقت آجائے اور جنازہ جس وقت حاضر ہو کنواری کا نکاح جب اس کا کفو ملے) آخری حدیث سنن ابو داود (م ٣١٥٩) کی شامی کی اس عبارت میں ہے

قال السید الشامی رحمة الله تعالى علیه (قوله ويسرع في جهازه) لما رواه أبو داود عنه  ﷺ لما عاد طلحة بن البراء وانصرف قال ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه وعجلوا به فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله والصارف عن وجوب التعجيل الاحتياط للروح الشريفة فإنه يحتمل الإغماء (رد المحتار، ٨٣/٣) والله تعالی اعلم 

٣ جھوٹ بولنا اور بلا وجہ سوال کرنا حرام ہے جھوٹ کی حرمت پر دلیل نقل کرنے کی ضرورت نہیں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جھوٹوں پر الله کی لعنت ہے بلا وجہ مانگ مانگ کر کھانے کی حرمت بتانا ضرورت زمانہ ہے

فرمایا رسول الله صلی الله تعالی عليه وآله وسلم نے من سأل الناس وله ما يغنيه جاء يوم القيامة ومسألته في وجهه خموش (سنن الترمذی م ٦٥٠ صحیح البخاری م ١٤٧٤ جو لوگوں سے سوال کرے اور اس کے پاس وہ شئے ہو جو اُسے بے نیاز کرتی ہو روزِ قیامت اس حال پر آئے گا کہ اُس کا وہ سوال اس کے چہرہ پر خراش و زخم ہو نیز فرماتے ہیں ﷺ من سأل الناس أموالهم تكثرا فإنما يسأل جمرا فليستقل أو ليستكثر (صحیح مسلم م ١٠٤١ اسنن ابن ماجه م ١٨٣٨ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے اُن کے مال کا سوال کرتا ہے وہ جہنّم کی آ گ کا ٹکڑا مانگتا ہےاب چاہے تھوڑی لے یا بہت نیز فرماتے ہیں ﷺ من سأل من غير فقر فكأنما يأكل الجمر (مسند احمد م ١٧٥٠٨ شرح معانی الآثار م ٣٠٢١ جو بے حاجت وضرورت شرعیہ سوال کرے وہ جہنم کی آگ کھاتا ہے)

قال الإمام رحمه الله ورحمنا به بے ضرورتِ شرعی سوال کرنا حرام ہے، اور جن لوگوں نے باوجود قدرت کسب بلا ضرورت سوال کرنا اپنا پیشہ کر لیا ہے وہ جو کچھ اس سے جمع کرتے ہیں واللہ اعلم باالصواب

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ