Headlines
Loading...

(مسئلہ) مال حرام سے خریدی ہوئی چیز کو بیچنے پر جو نفع حاصل ہوا وہ جائز ہے یا نہیں؟ جیسے زید کے پاس چوری کے دس روپے ہیں اور اس نے کوئی چیز دس روپے میں خرید کر پندرہ روپے میں فروخت کر دیا تو یہ پانچ روپے کا نفع اسکے لیے جائز ہے یا نہیں؟ مع دلیل جواب عنایت فرمائیں

(الجواب) چوری کے روپیوں کا اصل مالک کو لوٹا واجب ہے وہ نہ ہو تو اس کے وارثین کو کیونکہ از خود چور اس رقم کا مالک نہیں ہوسکتا. ہاں، وہ چیز جو اس رقم سے خریدی اور خریداری میں عقد ونقد مال حرام پر جمع نہ تھے یعنی یوں نہ ہوا تھا کہ حرام روپیہ دکاندار کے سامنے ڈال دیا اور کہاں فلاں چیز مجھے دے دے یا عقد کے وقت حرام روپیہ دکھا کر کہا کہ اس سے چیز دے اور اور معاوضہ میں وہی حرام روپیہ دی تو شئے حرام ہے کہ عقد ونقد زر حرام پر جمع تھی لہذا وہ چیز صدقہ کردے تاکہ خبیث شئے سے ہاتھ خالی ہوں اور ایسا نہ تھا بلکہ بغیر پیسہ دکھائے یا حلال روپیہ دکھاتے ہوئے کہا چیز دے اور معاوضہ میں حرام روپیہ دیا تو وہ چیز پاک ہے مفتی بہ قول کے مطابق اور یہ امام کرخی کا قول ہے لہذا اسے بیچ کر نفع حاصل کر سکتا ہے تنویر میں ہے لو تصرف في المغصوب والوديعة وربح إذا كان متعينا بالاشارة أو بالشراء بدراهم الوديعة أو الغصب ونقدها وإن أشار إليها ونقد غيرها أو إلي غيرها أو أطلق ونقدها لا وبه يفتى (در المختار ٢٠٦/٢ اگر غصب کردہ چیز اور امانت (غیر زر وسیم) میں اس نے تصرف کیا اور نفع کمایا ہو تو اسے خیرات کردے جبکہ وہ اشارہ سے متعین ہو اور اگر امانت اور غصب شدہ دراہم سے کوئی چیز خریدی اور وہی دراہم تبادلہ میں دئیے تو وہ چیز حرام ہے اور اگر ان کی طرف اشارہ کیا لیکن دیتے وقت دوسرے دراہم بصورت نقدی  دئیے یا دوسرے دراہم کی طرف اشارہ کیا یا چیز خریدتے وقت ثمن سے اطلاق کیا (کہ فلاں چیز دے دے) پھر قیمت دیتے وقت وہی حرام درہم دئیے تو اسے خیرات نہ کرے (اس لئے کہ وہ پاک ہے) اور اسی پر فتوی دیا جاتا ہے) اس مسئلہ کو فتاوی رضویہ میں متعدد جگہوں ہر تفصیل سے سمجھایا گیا ہے والله تعالی اعلم

کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ