Headlines
Loading...
مسلمان رہتے خود کو قادیانی ظاہر کرانا شرعا کیسا ہے

مسلمان رہتے خود کو قادیانی ظاہر کرانا شرعا کیسا ہے



(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کہتا ہے کہ میں خود کو قادیانی ظاہر کر کے مسلمانوں سے سوال وجواب کرنا چاہتا ہوں قادیانیوں کے درمیان کیوں کہ وہ اسے اپنی جماعت میں سمجھتے ہیں جاننا یہ ہے کہ زید کا مسلمان رہتے خود کو قادیانی ظاہر کرنا شرعا کیسا ہے؟ اسے جب بتایا گیا کہ حدیث نبوی ہے کہ جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے تو وہ دلیل میں کہتا ہے کہ علماء بھی تو مناظرے کا طریقہ سکھانے کے لئے فرضی طور پر مخالف (کا کردار ادا کرتے ہیں) بن جاتے ہیں؟ 
(الجواب) خود کو قادیانی ظاہر کرنے کے لیے کفریہ بات کہنا کفر کی تائید کرنا خود کو قادیانی کہنا منوانا اگرچہ یہ سب باتیں ظاہری طور پر ہوں محض اس مقصد سے کہ کفار اسے اپنا سمجھیں، کفر مبین ہے اگر زید نے ایسا کچھ ہی کہا تھا جس کے سبب قادیانی اسے اپنا سمجھنے لگے تو مرتد ہوگیا اب تجدید ایمان اس پر فرض ہے اور قادیانیوں نے اسے بلا وجہ ہی یا اس نے بات کچھ اور کہی قادیانیوں نے اسے اپنی تائید میں جان کر اپنا سمجھ لیا تو کفر نہیں اب مسلمانوں سے قادیانی سمجھ کے مطابق سوالات کرے تو یہ کفر ہے اور ایسے سوالات کرے جس سے مقصود قادیانیوں کا راز فاش کرنا ہو تو یہ کفر نہیں لیکن اس طرح رہنا کہ مسلمان اسے قادیانی گمان کریں حرام ہے علماء مناظرہ کا طریقہ سکھانے کے لیے خود کو قادیانی ظاہر نہیں کرتے
فرمایا سرکار عالم ﷺ نے من  سود مع قوم فهو منهم (السنۃ لابن أبی عاصم م ١٤٦٤ تاریخ بغداد ٤٣/١٠ جو شخص جس قوم میں شامل ہوا وہ انہیں میں سے ہے) اور فرمایا صلی الله تعالی عليه وآله وسلم نے برئت الذمة ممن أقام مع المشركين في ديارهم (معجم الکبیر م ٢٢٦١ ٢٢٦٢ السنن الکبری للبیہقی م ١٧٧٥٠ الآحاد والمثانی م ٢٥٢٦ رجالہ ثقات اس کی ذمہ داری (مجھ پر سے) ختم ہوگئی (یعنی شفاعت) جو مشرکین کے علاقوں میں ان کے بیچ رہا)فرمایا ﷺ نے أنا بريء من كل مسلم مقيم بين أظهر المشركين (سنن أبی داود م ٢٦٤٥ سنن الترمذی م: ١٦٠٤ السنن الکبری للبیہقی م ١٦٤٧١ ١٨٤١٩ معجم الکبیر م ٣٨٣٦ صحيح میں ہر اس مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے بیچ قیام کرتا ہے) اور فرمایا من كثر سواد قوم فهو منهم ومن رضي عمل قوم كان شريكا في عملهم (إتحاف الخیرۃ المہرۃ ١٣٤/٤ راوہ أبی یعلی عن ابن مسعود المطالب العالیہ م ١٦٦٠ رجالہ ثقات جس شخص نے کسی قوم کی جماعتی تعداد میں اضافہ کیا تو وہ انہی میں سے ہے اور جو شخص کسی قوم کے عمل سے راضی ہوا وہ اس کے عمل میں شریک ہے) اور فرمایا من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله (سنن أبی داود م ٢٧٨٧ المعجم الکبیر م ٧٠٢٣ جو کوئی کسی مشرک کے ساتھ جمع ہوا اور اس کے ساتھ ٹھہرا تو بیشک وہ اسی مشرک کی طرح ہے) والله تعالی اعلم
کتبہ ندیم ابن علیم المصبور العینی ممبئی مہاراشٹر انڈیا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ