Headlines
Loading...



(مسئلہ) علمائے کرام کی بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ کیا کوئی ایسی حدیث پاک ہے جس میں حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنہا نے یہ ارشاد فرمایا کہ حضور ﷺ کی طرف کوئی یہ بات کہے کہ حضور ﷺ غیب کی خبر جانتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے اور اس بات پر یہ  آیت  تلاوت فرمائی وما تدری نفس ماذا تکسب غدا صحیح ہے کیا ایسا ہے کہ حضور غیب کی خبر نہیں جانتے

(الجواب) یہ خبر واحد ہے یعنی یہ حدیث دلیل ظنی ہے اور دلالت بھی ظنی اور آیت اگرچہ قطعی ہے لیکن مطلب جو اس سے وہابیہ نے سمجھا باطل ہے پھر اس باطل سمجھ کا عقائد میں اور اس دلیل ظنی کا تعین عقائد صحابہ میں اعتبار کس طرح کیا جائے؟ ہماری طرف سے جو دلائل قطعیہ پیش کیے جاتے ہیں وہ آپ الدولة المکیة انباء المصطفی خالص العتقاد میں پڑھ سکتے ہیں اس آیت کے آخر میں ہے إن الله عليم خبير بیشک الله جاننے والا بتانے والا ہے (أن يكون الخبير بمعني المخبر تفسیرات الأحمدية ص ٤٢٠) پھر یہ سمجھنا کہ حضور ﷺ کو یہ نہیں بتایا جھوٹ ہے یہ خود جھوٹ ہے اور عائشہ رضی الله عنها کے کلام کا جھوٹا ہونے کسی کو بھی قبول نہیں تو معلوم ہوا کہ آپ رضی الله عنها کے کہنے کا مطلب کچھ اور ہے اور ظاہر مطلب یہ ہے کہ جس طرح کاہنوں کے بارے میں یہ اعتقاد مکہ کے جہلاء میں عام تھا کہ وہ از خود بغیر تعلم سارا غیب جانتے ہیں یہ سب کچھ رسول الله ﷺ کے بارے کہنا جھوٹ ہے

غوث سیدی عبد العزیز الدباغ ان آیتوں اور احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں جو ظاہرا علم غیب مصطفی کی نفی میں ہے الحصر الذي في كلام الله وفي الحديث الغرض منه إخراج الكهنة والعرافين من له تابع من الجن الذين كانت تعتقد فيهم جهلة العرب الإطلاع علي الغيب ومعرفته حتي كانوں يتحاكمون إليهم ويرجعون إلي قولهم فقصد الله تعالي إزالة ذلك الاعتقاد الفاسد من عقولهم فأنزل هذه الآيات وأمثالها (الأبريز من کلام سيدی عبد العزیز ص ٣١٢ الله کے کلام اور احادیث میں جو حصر بیان کیا ہے اس کا مقصد کاہنوں اور عرافین جن کے تابع جن ہوتا ہے کے علم غیب کی نفی ہے رسولوں کے علم غیب کی نہیں جہلائے عرب ان کے بارے میں گمان رکھتے تھے کہ انہیں علم غیب پر اطلاع اور اس کی معرفت ہے یہاں تک کہ وہ کاہنوں کو اپنے معاملات میں ثالث کرتے اور ان کے قول کے مطابق کرتے الله تعالی نے قصد کیا کہ ان کے عقلوں سے اس فاسد عقیدے کا ازالہ کرے لہذا یہ آیات اور جو ان کی مثل ہے نازل فرمائیں)

اور فرمایا والأولياء رضي الله عنهم من الحق لا من الباطل فلا يخرجهم الحصر الذي في الآية ونحوها نحن نقول في ھذا وأمثاله إن الكلام يكون عاما ونشاشيب النور التي تكون فيه تخص بعض أفراده رون بعض فالعارف إذا سمع اللفظ العام نظر إلي تلك النشاشيب فإن رآها نزلت علی فلان وفلان وزید وعمرو وخالد وبکر فقط علم أنهم المرادون فقط دون غیرھم فلا دخول له فی الکلام وإن کان اللفظ عاما وإن نظر إلی النشاشیب فرآھا نزلت علی جمیع الأفراد ولم یشذ منها فرد، علم أن الجمیع مراد قال ونبینا ومولانا محمد ﷺ کان یعلم ھذا قبل أن تخرج الآية من کلامه الشریف لأن نور النشاشیب یسبق إلی قلبه لیعرف مراد الحق سبحانه (ایضا اور اولیاء رضي الله عنهم حق سے ہیں لہذا وہ اس حصر سے نہیں نکلے گے جو آیات واحادیث میں ہے اس قسم کی آیات بظاہر عام ہوتی ہیں لیکن اس کے ذریعے خاص حکم مراد لیا جاتا ہے لہذا جن کوئی عارف کسی آیت کو سنتا ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس آیت کے مصداق میں کون کون سے افراد شامل ہیں اور کون سے نہیں اور نبی کریم ﷺ کو معلوم تھا کہ آیت کے مصداق کون کون ہے کیونکہ آیت کی تلاوت سے قبل ہی آپ پر مراد سے واقف ہوجایا کرتے ٨)

یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عائشہ کے نزدیک رسول الله ﷺ کو پانچ چیزوں کا علم عطا نہیں فرمایا گیا تعلم علوم غیبیہ بذریعہ قرآن سے یہ پانچ علوم مستثنی ہیں یعنی ان کی تعلیم نہیں فرمائی گئی اگرچہ الله عز وجل کے مطلع فرمانے سے علم ہوتا تھا حضرت عائشہ کے قول کا یہ مطلب ہونا ان کی دلیل سے ظاہر ہے کہ انہوں نے علوم خمسہ والی آیت طور دلیل پیش کی یہ آیت نہیں پیش فرمائی (قل لا يعلم من في السموت الخ) دوم جو الفاظ سائل نے لکھے یعنی (ومن حدثك أنه يعلم الغيب فقد كذب) اس میں بھی اضطراب ہے چنانچہ بخاری شریف کی ہی دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں ومن حدثك أنه يعلم ما في غد فقد كذب (جس نے کہا آپ ﷺ کل کی بات جانتے ہیں اس نے جھوٹ کہا) کل کی بات جاننا یہ علوم خمسہ میں سے ہے تیسری بات کہ حضرت عائشہ نے اسے کذب کہا ہے کفر نہیں اگر ان کے نزدیک حضور ﷺ کا علوم خمسہ کا نہ جاننا قطعی ہوتا تو وہ ضرور قرآن کے انکار کے سبب اسے کفر کہتے پس معلوم ہوا ہے کہ ام المومنین کا یہ قول غیوب خمسہ کے متعلق ہے نہ کہ مطلقا غیب کے بارے میں بعض علمائے اہل سنت کا بھی یہی موقف ہے اور ظاہر ہے ان دونوں مسئلوں میں یعنی اثبات رؤیت معراج اور رسول الله ﷺ کے عالم خمسہ غیبیہ ہونے میں صحابہ کا اختلاف تھا تو دونوں مسئلے مع دلیل ساتھ بیان فرمائے. ہمارا اور اکثر علماء کا یہ موقف ہے کہ رسول الله ﷺ کو علوم خمسہ بھی سکھائے گئے کہ یہ موجودات کا علم ہے اور رسول الله ﷺ کو تمام موجودات کا علم ہے معدومات کے علم سے متعلق ہمارا دعوی نہیں لقوله تعالي وعلمك مالم تکن تعلم وکان فضل الله علیك عظیما (النساء ١١٣ اور آپ کو وہ علم سکھا دیا جو تم نہ جانتے تھے اور اے نبی کریم الله کا آپ پر بڑا فضل ہے) اور سیدی دباغ رضی الله عنه فرماتے ہیں جو غوث تھے وكيف يخفى أمر الخمس عليه ﷺ والواحد من أهل التصرف من أمته الشريفة لا يمكنه التصرف إلا بمعرفة هذه الخمس (الأبریز من کلام سیدی عبد العزیز ص ٣١٣ رسول ﷺ سے ان پانچ چیزوں کا علم کیسے مخفی ہو سکتا ہے حالانکہ آپ کی امت شریفہ میں سے کوئی شخص اس وقت تک صاحب تصرف نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ان پانچ چیزوں کی معرفت نہ حاصل کر لے) علوم خمسہ کی تفصیل الدولة المکية میں موجود ہے وہیں ملاحظہ فرمائیں والله تعالی اعلم

کتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ