جس امام کا عقیدہ نہ معلوم ہو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا
مسئلہ کیافرماتے ہیں علمائے دین وفضلائے شرع متین ان مسئلوں میں کہ
(۱) ہم لوگوں نے چارسال سے ایک ایسے حافظ قرآن کے پیچھے نماز تراویح ادا کی جن کے عقیدے کا حال معلوم نہ تھا اور بظاہر وہ اپنے کوسُنّی کہتے تھے۔امسال اثنائے گفتگو میں حافظ صاحب نے یہ کہاکہ اولیاء اللہ سے مددمانگنا ناجائز وکفرہے۔‘‘ اس جملہ کو سن کر یہاں کے امام مولانا عبدالجبار صاحب اور مصلّیان مسجد کو سخت تشویش ہوئی کہ جب ان کے کلام سے بدعقیدگی کا اظہار ہورہاہے تو ان کے پیچھے نماز کیسے پڑھی جائے؟ چنانچہ بعد نماز جمعہ امام صاحب اور مصلّیان مسجد نے صحن مسجد میں حافظ صاحب کو روک کر اُن سے چند سوالات کئے پوچھاکہ اولیاء اللہ سے مُرادیں مانگنی جائز ہے یانہیں ؟ یعنی جسے ’’استمداد اولیاء کہتے ہیں وہ جائز ہے یانہیں ؟ حافظ صاحب نے کہاکہ بالکل ناجائز وحرام وکفر ہے اس کے بعد دوسرا سوال کیاگیا کہ انبیائے کرام کو زندہ جانتے ہیں یامُردہ؟ حافظؔ صاحب نے جواب دیا مُردہ کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ یہ سن کر امام صاحب نے فرمایا کہ ان کے پیچھے نماز تراویح درست نہیں یا اور کوئی نمازبھی ان کے پیچھے ہرگزنہ پڑھی جائے اس کے بعد دوجماعت ہوگئی اور دونوں کو دعویٰ سُنّیت ہی کا ہے۔ کچھ لوگ تو امام صاحب کے ساتھ ہوگئے اور حافظ صاحب کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دو لیکن دوسری جماعت نے نماز تراویح اُن کے پیچھے پڑھی اب بیان فرمایا جائے کہ جن لوگوں نے ان کے پیچھے نماز ادا کی اورجنہوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑدی اُن دونوں ہی کے بارے میں شریعت مطہرہ کا حکم کیا ہے؟
(۲) کیا سنّیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ استمداداولیا ناجائز وکفر ہے،نبی مرگئے زندہ نہیں (معاذاللہ ) مع دلائل تحریر فرمائیں کہ جن لوگوں نے نماز پڑھی، جولوگ حافظ صاحب کے حمایتی ہیں اور ان کے عقیدے کی موافقت کرتے ہیں ، اگر اس عقیدے سے بازنہ آئیں اورتوبہ نہ کریں تو ان کے ساتھ شادی بیاہ ،سلام وکلام خوردونوش، نشست وبرخاست جائز ہوگا یانہیں ؟وضاحت فرمادیں
(۳) مؤذن صاحب نے کہا یارسول اللہ تومذکورہ حافظ صاحب نے جواب دیا کہ کیا اباہی تباہی بکتے ہو؟ اورحافظ صاحب نے بیعت ہونے کے متعلق بھی یہ کہاکہ بیعت ہونا کوئی ضروری نہیں حافظ صاحب کا کہنا درست ہے یامؤذن صاحب کا؟ بینواوتوجروا
المستفتی محمدنعمت اللہ خاں برکاتی رفیق ومعین ادارۂ شرعیہ کیرآف عجیب اللہ خاں ٹیلرماسٹرمقام و ڈاک خانہ جرنگڈیہہ ضلع ہزاری باغ ۱۲دسمبر ۱۹۷۱ء
۹۲/۷۸۶
الجوابـــــــــــــــــــ اللہ م ہدیۃ الحق والصوابـــــــــــــــــ!
(۱) صورت مسئولہ میں حافظ موصوف کا عقیدہ اور مسلک اُن کے جواب سے ظاہر ہے ۔ایسے بدعقیدہ حافظ کے پیچھے نماز نہ ہوگی انبیائے کرام علیہم السلام اوراولیائے عظام سے مدد مانگنا جائز ہے جب کہ عقیدہ یہ ہوکہ حقیقی امداد تو رب تبارک وتعالیٰ ہی (کی جانب سے) ہے اور یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اورمسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے کوئی جاہل بھی اولیائے کرام کو خدا نہیں سمجھتا قرآن حکیم میں ہے وَاسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ صبروصلاۃ سے مدد طلب کرو ظاہرہے کہ صبرو صلاۃ غیراللہ ہی ہے دوسری جگہ ہے وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بَعْضَہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ اورمسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں (کنزالایمان) حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا من انصاری الی اللہ بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللہ کی طرف (کنزالایمان) حدیث شریف میں حضرت عبداللہ ابن مسعودوعبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا انفلتت دابۃ احدکم بارض فلاۃ فلیناد یاعباداللہ احبسوافان اللّٰہ تعالیٰ عبادفی الارض تحبسہٗ یعنی جب تم میں سے کسی کا جانور جنگل میں چھوٹ جائے تو یوں نداکرے اے اللہ کے بندو روک لو خداکے بندے زمین میں ہیں جو اسے روک لیں گے اس سے معلوم ہوا کہ محبوبان خدا و اولیائے کرام سے مدد چاہنا ان کو خدا کے حضور میں وسیلہ گرداننا جائز ہے قرآن حکیم میں ہے وَابْتَغُوْاِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو (کنزالایمان) طبرانی میں حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا جب تم میں سے کسی کی کوئی چیزگم ہوجائے اور وہ ایسی جگہ ہو جہاں اس کا کوئی عزیز ورفیق نہ ہو اور وہ اعانت و مددکا خواہاں ہوتو ان الفا ظ سے مدد چاہے اعینونی یاعباداللہ اعینونی یاعباداللہ اعینونی یا عباداللہ فان للہ عبادالایراہم اے اللہ کے بندے میری مدد فرمایئے اے اللہ کے بندے میری مدد فرمایئے اے اللہ کے بندے میری مدد فرمایئے اس لئے کہ اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جونظرنہیں آئے مولانا رفیع الدین صاحب اپنے رسالہ نذور مزارات میں تحریر فرماتے ہیں دوم ایں کہ بگوید، درجناب الٰہی برای ایں مشکل دُعا بکنید کہ این مُراد من حاصل شود، سوم ایں کہ آں بزرگ راوسیلہ وشفیع درجناب الٰہی سازد وگوید کہ الٰہی بہ برکت روح فلاں بزرگ وبحق عنایات ومہربانی خود مراد ومشکل من آسان کنی مشکوٰۃ شریف میں حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی کی روایت موجود ہے کہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا سل فقلت اسألک مرافقتک فی الجنۃ یعنی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ربیعہ سے فرمایا مانگ لو توانہوں نے عرض کیا میں جنت میں آپ کی ہمراہی مانگتا ہوں توحضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قال فاعنی علی نفسک بکثرت السجودۃ، اپنے نفس پر کثرت سجود سے میری مدد کرو تفسیر کبیرمیں حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جوکوئی جنگل میں پھنس جائے تو یوں کہے اعینونی عباداللّٰہ یرحمکم اللہ
اولیارا ہست قدرت ازالہٰ
تیر جَستہ باز گردانند زراہ
اشعۃ اللمعات میں امام غزالی گفتہ ہرکہ استمداد کردہ شودبوی درحیات استمداد کردہ شودبوی بعدازوفات حصن حصین میں ہے وان اراد عونافلیقل یاعباداللہ اعینونی ۳بار درمختار جلدسوم باب اللقط میں گمی ہوئی چیزکو تلاش کرنے کا ایک عمل لکھا ہے ان الانسان اذاضاع لہ شیئی واراد ان یردہ اللہ علیہ فلیقف علی مکان عال مستقبل القبلۃ ویقراء الفاتحۃ ویھدی ثوابہاللنبی علیہ السلام ثم یہدی ثوابہالسیدی احمدابن علوان ویقول یاسیّدی یااحمد یابن علوان ان لم تردضالتی علی والا نزعتک من دیوان الاولیاء فان اللہ یردضالتہٗ ببرکتہٖ ٖ یعنی اگر کسی شخص کی کوئی چیز گم ہوجائے اور وہ چاہے کہ خدا وہ چیز اسے واپس ملادے تو اونچی جگہ قبلہ رُو ہوکر سورہ فاتحہ پڑھ کر اس کا ثواب سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرے پھرسیّدی احمد بن علوان کوثواب پہنچائے پھرکہےاے میرے آقا اے احمد، اے ابن علوان اگر آپ نے میری چیزنہ دی تو مَیں آپ کو اولیاء کے دفتر سے نکال لوں گا تو خداگمی ہوئی چیزوں کو ،ان کی برکت سے ملا دے گا
(۲) انبیائے کرام وشہدائے عظام کو مُردہ کہنے والا جاہل بدعقیدہ بے دین ہے کہ وہ آیات قرآن واحادیث نبوی واقوال ائمہ کرام و فقہائے عظام کے خلاف اپنی خباثت کا اظہار کرتاہے قرآن کریم میں ہے وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائُ وَلٰکِنَّ لَّاتَشْعُرْوْن اور خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں جب نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کا غلام لوہے کی تلوار سے مقتول ہوتو وہ زندہ کہلائے اور خود نبی مُردہ ہو، عجیب چیز ہے برین عقل ودانش بباید گریست جوعشق الٰہی اور محبت خداوندی میں جان دے اُسے زندہ نہ کہاجائے مسلمانوں کا عقیدہ تویہ ہے کہ ان نبی اللہ حی یرزق اس سلسلہ میں تمام دلائل اور احادیث واقوال فقہاء کو لکھنے کے لئے دفتر درکار
(۳) مؤذّن کے یارسول اللہ کہنے پر حافظ مذکور کا جواب کس قدرایمان سوز ہے وہ ایمان والوں سے مخفی نہیں ایسے حافظ کے پیچھے نماز قطعی نہ ہوگی ایسے شخص کو امام بنانا ناجائز وحرام مراقی الفلاح میں ہے کرہ امامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہٖ الدین فیجب اہانتہٗ شرعافلا یعظم بتقدیمہٖ للامامۃ دینی امور کو صحیح طور پر بجانہ لانے کی وجہ سے فاسق عالم کی امامت مکروہ ہے شرعاً اس کی اہانت واجب ہے تو امامت کے لیے آگے بڑھاکر اس کی تعظیم نہیں کی جائے گی بلکہ ایسے شخص سے سلام وکلام میل جول اس کے ساتھ کھانا پینا حرام حرام حرام حدیث شریف میں ہے ایاکم وایاہم لا یضلونکم ولا یفتنونکم تم ان سے دور رہو اور ان کو اپنے سے دور رکھو کہیں وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں نہ ڈال دے قرآن حکیم میں ہے وَاِمَّایُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَالذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ اور جوکہیں تجھے شیطان بھلادے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ (کنزالایمان) قرآن حکیم نے متعدد مقامات پریاایہاالنبی اے غیب کی خبر بتانے والے (نبی) یایہاالرسول اے پیغمبر یایہاالمزمل اے چادر میں لپٹنے والے یایہاالمدث اے بالاپوش اوڑھنے والے یایہاالمؤمنون اے مؤمنوں بلکہ یایہاالکٰفرون اے کافرو فرمایا عالمگیری کتاب الحج باب زیارت النبی علیہ السلام میں ہےثم یقول السلام علیک یارسول اللہ یانبی اللہ اشہد انک رسول اللہ آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول اے الہ کے نبی میں گواہی دیتا ہوں کہ آب اللہ کے رسول ہیں آگے حضرات صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے متعلق زائریوں عرض کرے السلام علیک یاخلیفۃ رسول اللہ آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول کے خلیفہ
حضرت زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
یارحمۃ للعالمین ادرک لزین العابدین اے رحمۃ اللعالمین آپ زین العابدین کی دستگیری فرمایئے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں
یاسیدالسادات جئتک قاصد ا
ارجو رضاک واحتمی بحماک
اے سرداروں کے سردار آپ کے حضور بالارادہ حاضر ہواہوں
آپ کی رضا کا امیدوار ہوں اور اپنے آپ کو آپ کی پناہ یں دیتاہوں
مولانا جامیؔ فرماتے ہیں
زمہجوری برآمد جان عالم
ترحّم یانبی اللہ ترحّم
آپ سے دور رہ کر جہان کی جان نکل رہی ہے
رحم فرمایئے اے اللہ کے نبی رحم فرمایئے
حاجی امداداللہ مہاجرمکی لکھتے ہیں
جہاز امت کا حق نے کردیا ہے آپ کے ہاتھوں
اسے چاہو ڈبودو یا تراؤ یارسول اللہ
حافظ مذکورکے پیشوا ہی لکھتے ہیں
کرم کر، اے کرم احمدی کہ تیرے سوا
نہیں ہے قاسمؔ بیکس کا کوئی حامی کار
غرض کہ یہ چند دلائل اختصار کو مدنظر رکھ کر پیش کئے (گئے) اہل ِایمان کے لئے اتناہی کافی اور بے ایمان ہٹ دھرم بدمذہب دشمن رسول کے لئے دفتربھی ناکافی کس عالم بزرگ متبع شریعت سے بیعت کرنا بھی ضروری بلکہ سنت ہے۔ بیعت رضوان کے متعلق قرآن حکیم میں ارشادفرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہ یَدُاللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْہِمْ جوتمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے بیعت کی حقیقت یہ ہے کہ خدا کے کسی بزرگ بندے کے ہاتھ پر یہ عہد واقرار کرناکہ ہم خدا کے وفادار بندے رہیں گے بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں بیعت اسلام بیعت جہاد بیعت ارادت بیعت طریقت بیعت خلافت وغیرہ قرآن حکیم میں ہے یَوْمَ نَدْعُوْاکُلَّ اُنَاسٍ بِاِمَامِہِمْ یعنی قیامت میں ہم ہرشخص کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے مسلم شریف میں ہے کہ جس کے گردن میں کسی کی بیعت کی رسّی نہ ہو اور وہ مرجائے تواس کی موت جاہلیت کی ہوگی
پیررابگزیں کہ بی پیراین سفر
ہست بَس پُر آفت وخوف وخطر
غرض کہ مؤذّن کا قول صحیح ودرست اور حافظ مذکور گستاخ بے باک بدعقیدہ کا قول ناقابل توجہ ہے مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ محبوب ایمان و اسلام ہے ایسے بدعقیدہ کے پیچھے نماز تو درکنار اس کے ساتھ میل جول سلام وکلام حرام و ناجائز قرآن حکیم میں ہے لَاتَجِدُقَوْمًا یُّوْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَاللّٰہُ وَرَسُوْلَہٗ تم نہ پاؤگے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ وہ دوستی کرے ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی (المجادلۃ ۲۲)
نقل شدہ فتاویٰ ادارہ شریعہ جلد اوّل صفحہ نمبر 97/98/99
وہوتعالیٰ اعلم وعلمہٗ جل مجدہٗ اتم
کتبہ محمد فضل کریم غفرلہ الرحیم رضوی خادم دارالافتاء ادارۂ شرعیہ بہار پٹنہ۶
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ