Headlines
Loading...
وہابی جماعت کے متعلق علماء کے کیا اقوال ہیں ؟

وہابی جماعت کے متعلق علماء کے کیا اقوال ہیں ؟


مسئلہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درجِ ذیل مسائل میں کہ

(۱) وہابی جماعت کے متعلق علماء کے کیا اقوال ہیں ؟

(۲) وہابی امام کی اقتدا نماز میں کی جاسکتی ہے یا نہیں ؟

(۳) وہابی جماعت کے وعظ کی مجلس میں جانا کیساہے؟

(۴) وہابی جماعت کے ہاتھوں ذبح کیا ہوا جانور کھانا حلال ہے یا نہیں ؟

(۵) وہابی جماعت کے کسی عالم سے نکاح پڑھوانا درست ہے یا نہیں ؟

(۶) وہابی جماعت کے یہاں شادیات کورواج دیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟جب کہ ان کی اولاد اُن کے عقائد کے ہم خیال ہے

(۷) تقویۃ الایمان ص ۵۰ کی عبارت ہے جیسا کہ ہرقوم کا چودھری اورگاؤں کا زمیندار،سوان معنوں کر پیغمبر اپنی امت کا سردار ہے اس عبارت سے اتفاق کرنے والا کیسا ہے؟ ازراہ کرم فوری ومتحقق جواب مرحمت فرماکر مشکور فرمائیں

المستفتی محمدبدرالدین خاں مقام وپوسٹ سلطان پوروایا منہار،ضلع ویشالی

۴؍جولائی ۱۹۷۳ء

۹۲/۷۸۶

الجوابـــــــــــــــــــــــ بعون الملک الوہابــــــــــــــــــــــــــــــ!

صورت مسئولہ میں اصل مسئلہ کے جواب سے پہلے چند ضروری باتیں قابلِ توجہ ہیں وہ یہ کہ فرقۂ وہابیہ ایک جدید فرقہ ہے جو ۱۲۰۹؁ھ میں رونما ہوا اس جماعت کا بانی وقائد محمدعبدالوہاب نجدی تھا،جس نے حرمین شریقین میں فتنے پھیلائے اوراجماعِ امت کے خلاف ایک جدید مسلک وعقائد کی ترویج اشاعت کی علمائے کرام کو قتل کیا ائمہ کرام وشہدائے عظام وصحابہ کرام کی قبریں کھودڈالیں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار پر انوار کو صنم اکبر کہا اس فرقے کا عقیدہ انبیائے کرام کی تنقیص وبزرگانِ دین کی تذلیل کرنا ہے۔ اسی عبدالوہاب نجدی کے بیٹے نے کتاب التوحید لکھا جس کا ترجمہ اسماعیل دہلوی نے کیا جس کا نام تقویۃ الایمان رکھا اسی سے ہندوستان میں وہابیت پھیلی امکان کذب کے مسئلہ کو لے کر اس مردود جماعت کے بعض پیشوا ومقتدا نے خالقِ کائنات جل جلالہ کی ذاتِ پاک کو بھی نہ چھوڑا چنانچہ ایضاح الحق مصنفہ مولوی اسماعیل دہلوی ص۳۵و ص۳۶ میں لکھا ہے تنزیہہ اوتعالیٰ از زمان ومکان واثبات رویت بلاجہت ومحاذات از ہمہ قبیل بدعاتِ حقیقیہ ست اگرصاحبِ آن اعتقادات مذکورہ را از جنسِ عقائد دینیہ می شمارد یعنی اللہ تعالی کو جہت زمان ومکان سے پاک جاننا اس کا دیدار بلاکیف ماننا بدعت وگمراہی ہے بحرالرائق ودرمحتار وعالمگیری میں ہے کہ خدا کے لئے جو مکان ثابت کرے وہ کافر ہے مولوی خلیل احمد انبیٹھی نے براہین قاطعہ میں اورمولوی محمودحسن نے جہدالمقل میں خدا کے لئے جھوٹ بولنا ممکن بتایا تعالی اﷲ عن ذالک علواکبیرا انبیاء ومرسلین صلوات اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی شانِ اقدس میں تو اس طائفہ مخذولہ نے ایسے گستاخانہ کلمات استعمال کئے جس کو دیکھنے اورپڑھنے سے،صاحب ایمان کے دلوں میں ایمان لرزہ براندام ہوجاتا ہے والعیاذباﷲ رب العٰلمین اگراس کی تفصیل دیکھنی ہو تو براہین قاطعہ جہد المقل تقویۃ الایمان بلغۃ الجیران تحذیرالناس حفظ الایمان صراط مستقیم اوررسالہ الامداد کامطالعہ کریں اس مردود جماعت کے پیشوا نے تو یہاں تک کہہ کر اپنی عاقبت برباد کی کہ نماز میں حضور کا خیال لانا اپنے گدھے اوربیل کے خیال میں ڈوب جانے سے بدتر ہے (صراط مستقیم ) نعوذ باﷲثم نعوذباﷲ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وتنقیص کرنے والوں کے متعلق شفاشریف وبزازیہ ودرروغرر وفتاویٰ خیریہ وغیرہا میں ہے اجمع المسلمون ان شاتمہ صلی اللہ علیہ وسلم کافر ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر یعنی تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرے، وہ کافر ہے اورجو اُس کے معذب اورکافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے امام اجل سیدی عبدالعزیز بن احمد بن محمدبخاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحقیق شرح اصول حسامی (میں ) فرماتے ہیں ان غلا (ای فی ہواہ) حتی وجب اکفارہ بہ لاتعتبرخلافہ ووفاقہ ایضا لعدم دخولہٖ فی مسمی الامۃ المشہود لہا بالعصمۃ وان صلی الی القبلۃ واعتقد نفسہ مسلمالان الامۃ لیست عبارۃ عن المصلّین الی القبلۃ بل عن المؤمنین فہو کافر وان کان لایدری انہ کافر یعنی بدمذہب اگراپنی بدمذہبی میں غالی ہو جس کے سبب اس کو کافر کہنا واجب ہوتو اجماع میں اس کی مخالفت و موافقت کا کچھ اعتبار نہ ہوگا کہ خطا سے معصوم ہونے کی شہادت تو امت کے لئے ہے وہ امت ہی سے نہیں اگرچہ قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہو اور اپنے کو مسلمان سمجھتا ہو اس لئے کہ امت قبلہ کی طرف نمازپڑھنے والوں کا نام نہیں بلکہ مسلمان کا نام ہے اوریہ شخص کافر ہے اگر چہ اپنے کو کافر نہ جانے امام مذہب حنفی امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کتاب الخراج میں فرماتے ہیں رجل مسلم سَبَّ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اوکذبہ اوعابہ اوتنقصہ فقد کفر باﷲ تعالیٰ وبانت منہ امراتہ جس مسلمان نے رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو گالی دی یا ان کی تکذیب کی یا عیب لگایا یا ان کی شان میں تنقیص کی تو اس نے کفر باللہ کیا اور اس کی بیوی اس سے جدا ہوگئی غایۃ الاوطار شرح درمختارمیں ہے والکافر یسبَّ النبی من الانبیاء فانہ یقتل حد اولا تقبل توبتہ مطلقا اور کافر نبیوں میں سے کسی نبی کو گالی دے تو اس پر قتل کا حد جاری کیا جائے اور مطلقاً اس کی توبہ قبول نہ ہوگی وفی فتاویٰ المصنف من نقص مقام الرسالۃ بقولہٖ بان سبہ صلی اللہ علیہ وسلم اوبفعلہ بان ابغضہ قتل حداکما مرالتصریح فتاویٰ مصنف میں ہے کہ جس نے مقام رسالت کی تنقیص کی اپنے قول سے بایں طور کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالی دی یا اپنے فعل سے بایں طور کہ اس نے ان کے خلاف ناپسندیدہ حرکت کیا تو اس پرقتل کا حد جاری ہوگا جیساکہ اس کی تصریح گزری مذکورہ بالاائمہ کرام وفقہائے عظام کی تصریحات سے سائل کے جملہ سوالات کے جوابات اجمالی طورپرمعلوم ہوگئے

(۱) کاجواب اقوالِ ائمہ سے ظاہرہے

(۲) نماز میں وہابی کی اقتدا نہیں کی جاسکتی

(۳) اس کی مجلس میں جانا شرعا درست نہیں ہے حدیث شریف میں ہے ایّاکم وایاہم لایضلونکم ولایفتنونکم تم ان سے دور رہو اور اپنے سے انہیں دور رکھو کہ کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں اور فتنہ میں نہ ڈالدیں دورشواز اختلاطِ یاربدبدتر بود از مارِبد

(۴) فقہائے کرام کے ارشادات کے پیش نظر، اس کے کھانے سے اجتناب وپرہیز کرنا چاہیے

(۵ و۶) نہیں

(۷) فہومنہم اس سے اتفاق کرنے والے کا شمار بھی اُنہیں میں ہوگا وہو تعالیٰ اعلم بالصواب وعندہ ام الکتاب والیہ المرجع والماب

نقل شدہ فتاویٰ ادارہ شریعہ جلد اوّل صفحہ نمبر 106 /107/108

کتبہ محمد فضل کریم غفرلہ الرحیم رضوی خادم دارالافتاء ادارۂ شرعیہ بہار پٹنہ ۶۱۴؍۷؍۷۳ء

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ