Headlines
Loading...


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حرمِ پاک یا مدینۂ منورہ شریف کی تھوڑی سی خاکِ مبارک لینا شرعًا کیسا ہے ؟ 

الجواب بعون الملک الوھاب

حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شہرِ مقدس کی خاکِ مبارک میں اللہ ربُّ العزت نے شفا رکھی ہے اسی خصوصیت کی بنا پر اسے خاکِ شفا کہا جاتاہے اور یہ خصوصیت مدینۂ طیبہ کے کسی مخصوص خطے کی نہیں بلکہ ساری زمینِ طیبہ اس خصوصیت کی حامل ہے 

صحیحین (بخاری و مسلم ) میں ہے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں

كَانَ إِذَا اشْتَكَى الْإِنْسَانُ الشَّيْءَ مِنْهُ أَوْ كَانَتْ بِهِ قَرْحَةٌ أَوْ جُرْحٌ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُصْبُعِهِ «بِسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذن رَبنَا

جب انسان کے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی یا اسے کوئی پھوڑا ہوتا یا کوئی زخم ہوتا تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرماتے بِسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا، بِرِيقَةِ بَعْضِنَا لِيُشْفَیٰ سَقِيمُنَا بِإِذن رَبنَا

اللہ کے نام سے ہماری زمین کی مٹی ہمارے بعض کی تھوک کے ساتھ تاکہ اللہ کے حکم سے ہمارے بیمار کو شفا بخشی جائے

بخاری شریف جلد ۲ ص ۸۵۵ حدیث ۵۷۴۵ 

مسلم شریف جلد ۲ ‍ص ۲۲۳ حدیث ۵۷۱۹

حضرت امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں

قالَ جمھور العلماء المراد بارضنا ھھنا جملۃ الارض و قیل ارض المدینۃِ خاصۃ لبرکتھا

یعنی جمہور علماء فرماتےہیں کہ یہاں زمین سے تمام زمین مراد ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ خاص مدینۂ طیبہ کی زمین مراد ہے کیوں کہ اس میں برکت ہے

شرح النووی علی المسلم ج ۲ ص ۲۲۳ 

اخبار المدینہ لابن زبالۃ ص ۱۹۸ پر ہے

والذي نفسي بيده إن تربتها لمؤمنة، وإنها شفاء من الجذام

(قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے. اس شہر کی خاک باعث امن ہے اور اس میں جذام سے شفاء ہے

امام نور الدین ابوالحسن علی بن عبداللہ بن احمد بن حسنی سمہودی علیہ الرحمۃُ و الرضوان (متوفیٰ ۹۱۱ ھ) اپنی مشہور کتاب وفاء الوفاء میں فرماتےہیں غبار المدينة شفاء من الجذام

(غبار مدینہ میں جذام سے شفاء ہے

وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۶۷ الفصل السادس فی الاستشفاء بترابھا و بتمرھا و ماجاء فیہ دارالکتب العلمیہ

اسی صفحہ پر ہے حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا والذی نفسی بیدہ انَّ فی غبارھا شفاء من کل داءٍ 

اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے اس شہر کے غبار میں ہر بیماری سے شفا ہے 

صفحہ ۶۸ پر ہے کہ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے فرمایا

أما علمت أن عجوة المدينة شفاء من السقم وغبارها شفاء من الجذام

کیا تم نہیں جانتے کہ مدینۂ منورہ کی عجوہ کھجور ہر بیماری سے شفاء ہے اور اس کا غبار جذام سے 

اسی صفحہ ۶۸ پر ہے امام سمہودی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں

وقد رأينا من استشفى بغبارها من الجذام وكان قد أضر به كثيرا؛ فصار يخرج إلى الكومة البيضاء ببطحان بطريق قباء ويتمرغ بها ويتخذ منها في مرقده فنفعه ذلك جدا

(وفا الوفاء، ٦٠/١

میں نے ایک شخص کو دیکھا ہے جسے اس غبار کے سبب کوڑھ سے نجات مل گئی اسے اس بیماری سے بہت ضرر پہنچا تھا وہ قباء کے راستے میں بطحان میں مٹی کے سفید ڈھیر پر چلا جاتا اس پر لوٹتا اور آتے وقت کچھ مٹی ساتھ لے آتا جس سے اسے بہت فائدہ ہوا 

حضرت علامہ محمد امین ابنِ عابدین شامی علیہ الرحمہ (متوفیٰ ۱۲۵۲ ھ) خاکِ حرم شریف کے بارےمیں فرماتےہیں

لا باس باخراجِ الترابِ والاحجارِ اللتی فی الحرم، وکذا قیل فی تراب البیت المعظم اذ کان قدرا یسیرا للتبرک بہ بحیث لاتکون بہ عمارۃ امکان كذا في الظهيرية وصوب ابن وهبان المنع عن تراب البيت لئلا يتسلط عليه الجهال فيفضي إلى خراب البيت والعياذ بالله تعالى لأن القليل من الكثير كثير كذا في معين المفتي للمصنف

رد المحتار جلد ۴ ص ۵۲ زکریا بکڈپو 

یعنی حرم شریف کی مٹی اور پتھر لانے میں کوئی حرج نہیں، اور اسی طرح بیتِ معظم (خانۂ کعبہ) کی مٹی سے متعلق بھی کہا گیاہے جب کہ تھوڑے مقدار میں ہو اتنا نہ ہو کہ اس سے مکان بنایا جاسکے اور ابن وہبان نے بیت اللہ شریف کی مٹی (لانے سے) روکنے کو درست قرار دیاہے تاکہ جہال اس پر مسلط نہ ہوجائیں (پس ایسا کرنا) خانۂ کعبہ کے گرنے کی طرف مفضی ہو والعیاذ باللہ تعالیٰ اس لیے کہ تھوڑا تھوڑا بھی زیادہ ہوجاتاہے مصنف کی معین المفتی میں اسی طرح ہے مذکورہ احادیثِ شریفہ نیز اقوالِ ائمۂ دینِ متین سے خوب واضح ہے کہ مقاماتِ مقدسہ خصوصا مدینۃُ النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کی خاکِ پاک بطورِ تبرک لینا جائز ہے نیز اسے بطورِ دوا استعمال کرنا بھی جائز کہ اس میں شفا ہے اور اس پر ہمارے اسلافِ کرام کا عمل رہاہے یہ کوئی نیا عمل نہیں ہے

ان عبارات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مدینۂ طیبہ کی خاکِ پاک کو خاکِ شفا کہہ سکتےہیں نیز امام نووی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عبارت سے مستفاد کہ تمام مدینۂ طیبہ کی مٹی میں شفا ہے ہاں اس زمانے میں ان اعمال سے روکنے والے نہیں مگر وہابیہ دیابنہ ( خذلھم اللہ تعالیٰ  ) کہ جن کا عمل زمانۂ رسالت دورِ صحابۂ کرام و ائمۂ دین سے ہٹ کر ہے 

سرکار سیدنا اعلیٰ حضرت عظیم البرکت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدائقِ بخشش شریف میں فرماتےہیں

دشتِ حرم میں رہنے دے صیّاد اگر تجھے

مٹی عزیز بلبلِ بے بال و پر کی ہے

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم 

اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

اے مدعیو! خاک کو تم خاک نہ سمجھے

اِس خاک میں مدفوں شہِ بطحا ہے ہمارا

ہے خاک سے تعمیر مزارِ شہِ کونیں

معمور اِسی خاک سے قبلہ ہے ہمارا

ہم خاک اڑائیں گے جو وہ خاک نہ پائی

آباد رضا جس پہ مدینہ ہے ہمارا

بجا تھا عرش پہ خاکِ مزارِ پاک کو ناز

کہ تجھ سا عرش نشیں آفریدہ ہونا تھا

اللہ تعالیٰ ہم سب کو فرقہائے باطلہ کے فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم الرؤف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم 

والله تعالیٰ  اعلم بالصواب 

کتبہ محمد عمار رضا قادری رضوی متعلم: دورۃ التخصص فی الفقہ الحنفی جامعہ سعدیہ عربیہ کاسرگوڈ کیرلا ۴ ربیع الغوث ۱۴۴۴ ھ بروز سہ شنبہ

الجواب صحیح محمد اشفاق احمد رضوی مصباحی صدر شعبۂ افتاء  جامعہ سعدیہ کیرلا 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ