Headlines
Loading...
کھانا کھانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا؟

کھانا کھانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا کیسا؟


کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے متعلق کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے جو ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کا طریقہ رائج ہے اس میں ہاتھ کو چہرے پر نہیں پھیرا جاتا جبکہ ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنے کی صورت میں ہاتھوں کو چہرے پر پھیر لینے کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے نیز وہاں صرف ہاتھوں کو چہرے کی طرف لوگ جھٹک دیتے ہیں جبکہ یہ بھی صحیح معلوم نہیں ہوتا

نیز یہ بھی واضح کیا جائے کہ دعا کرنے میں دونوں ہاتھوں کو ملاکر رکھا جائے یا دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ ہو؟

علاوہ ازیں ہاتھ کہاں تک اٹھایا جائے؟

کتاب وسنت کی روشنی میں جواب مرحمت فرماکر عند اللّٰہ ماجور ہوں

خاکی

بسمہ تبارک و تعالی الجواب بعون الملک الوہاب 

کھانے سے فراغت کے بعد ہاتھ دھونے سے پہلے دسترخوان پر ہی ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرنا اور پھر ہاتھوں کو چہرے پر مسح کے بجائے یونہی جھٹک لینا کوئی مسنون طریقہ نہیں ہے ۔بلکہ ایک اختراعی و خود ساختہ طریقہ معلوم ہورہا ہےاولا تو یہ کہ احادیث مبارکہ میں کھانے سے فراغت کے بعد کے تعلق سے بہت سی دعائیں منقول ہیں مگر کہیں پر بھی ہاتھوں کو اٹھا کر دعا مانگنے کا ذکر نہیں ہے ۔بلکہ فقہ کی کتابوں میں اس کی صراحت ہے کہ معلم کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے بعد دستہائے مبارک کو اٹھا کر دعا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی مبارک چہرے پر مسح کرتے تھے اور نہ جھکتے تھے حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی میں ہے 

أنه صلى الله تعالى عليه وسلم كان يدعو كثيرا كما هو فى الصلاة و الطواف و غيرهما من الدعوات المأثورة دبر الصلوات و عند النوم و بعد الأكل و أمثال ذالك و لم يرفع يديه و لم يمسح بهما وجهه أفاده في شرح المشكاة و شرح الحصن الحصين و غيرهما ( ص ١٩٠ قبيل باب ما يفسد الصلاة )

ثانیا یہ کہ جب بھی ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کی جائے تو اس کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کوچہرے پر پھیر ليا جائے

مراقی الفلاح میں ہے

( ثم يمسحون بها ) أى بأيديهم( وجوههم في آخره ) لقوله صلى الله تعالى عليه وسلم إذا دعوت الله فادع بباطن كفيك و لا تدعو بظهورهما فإذا فرغت فامسح بهما وجهك و كان صلى الله عليه وسلم إذا رفع يديه في الدعاء لم يحطهما و في رواية لم يردهما حتى يمسح بهما وجهه ( ١٩٠ ) 

حاشیہ الطحطاوی میں ہے ( قوله يمسحون بها أى بأيديهم وجوههم )الحكمة فى ذالك عود البركة عليه و سرايتها الى باطنه و تفاؤلا بدفع البلاء و حصول العطاء

صرف ایک ہی ہاتھ بلا عذر چہرے پر پھیرنا متکبرین کا طریقہ ہے اسی میں ہے 

ولا يمسح بيد واحدة لأنه فعل المتكبرين و دل الحديث على أنه إذا لم يرفع يديه في الدعاء لم يمسح بهما و هو قيد حسن ( نفس مصدر ) 

اسی سے صرف ہاتھ جھٹکنے کا حکم اور اسی كى قباحت ظاہر ہے

کھانے کے بعد دھونے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا کوئی محل نہیں کہ بے ہاتھ دھوئے چہرے پر مسح نہیں کر سکتا کہ ہاتھ آلودہ ہے حالانکہ مسنون طریقہ یہ ہے جب بھی ہاتھ اٹھا کر دعا ہو چہرے پر پھیر لیا جائے

دعا میں دونوں ہتھلیوں کو نہ ملایا جائے بلکہ کچھ فاصلہ ہونا چاہئے 

اسی طحطاوی میں ہے 

كيفيته المستحبة أن يكون بين الكفين فرجة و إن قلت 

ہاتھ کہاں تک اٹھایا جائے ؟ 

مراقی الفلاح میں ہے

( ثم يدعون لأنفسهم و للمسلمين رافعىأيديهم ) حذاء الصدر و بطونها مما يلي الوجه ( ص ١٨٩ ) 

حاشیہ الطحطاوی میں ہے ( قوله حذاء الصدر و بطونهما مما يلي الوجه ) الذي في الحصن الحصين و شرحه أن يرفعهماحذاء منكبيه باسطا كفيه نحو السماء لأنها قبلة الدعاء 

یعنی دونوں ہتھیلیان سینے اور مونڈھے کے مقابل ہوں ۔اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف کھلی ہوں کہ وہ دعا کے لئے قبلہ ہے

واللہ تعالی اعلم بالصواب

 کتبہ محمد اشفاق احمد رضوی جامعہ سعدیہ ۳ اگست ۲۰۲۱

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ