Headlines
Loading...
کیا حضور ﷺ نے حضرت ام ورقہ کو امامت کرنے کا حکم دیا ؟

کیا حضور ﷺ نے حضرت ام ورقہ کو امامت کرنے کا حکم دیا ؟


کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسلئے میں کی حدیث شریف میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ کو امامت کرنے کا حکم دیا ؟ تو کیا اس حدیث شریف کی روشنی میں عورتوں کا امام بننا جائز ہے یا نہیں بحوالہ جواب عنایت فرمائیں

الجواب بعون الملک الوہاب صورتِ مسئولہ میں عورت کا امام بننا جائز نہیں اور صرف عورتوں کی امام کرے تب بھی مکروہ ہے

قرآنِ مجید میں ہے ٱلرِّجَالُ قَوَّ ٰ⁠مُونَ عَلَى ٱلنِّسَاۤءِ

(سورۃ النساء آیت ۳۴ پارہ ۴)

ترجمہ اور مرد افسر ہے عورتوں پر 

( ترجمہ کنزالایمان )

علامہ آلوسی ؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں

شأنهم القيام عليهن قيام الولاة على الرعية بالأمر والنهي ونحو ذلك۔۔۔۔ ولذا خصوا بالرسالة والنبوة على الأشهر وبالإمامة الكبرى والصغرى وإقامة الشعائر كالأذان والإقامة والخطبة والجمعة

(تفسیر روح المعانی سورۃ النساء ۳۴ )

مردوں کی شان عورتوں پرامر بالمعروف اور نھی عن المنکر اور دیگر امور میں بادشاہ کی رعایا پر حکمرانی کی طرح ہے اسی وجہ سے مردوں کو نبوت رسالت امامت کبری (حکمرانی) امامت صغری(نماز کی امامت)اور شعائر اسلام مثلاً اذان اقامت خطبہ اور جمعہ کے قائم کرنے لیے خاص کیا گیا ہے

اسی طرح سنن ابن ماجہ کی ایک طویل روایت میں ہے 

ألا لا تؤمن امرأة رجلا

( حدیث نمبر ۱۰۸۱ سنن ابن ماجہ کتاب اقامت الصلاۃوالسنۃ فیہا باب فی فرض الجمعۃ)

ترجمہ جناب رسول اللہ ﷺنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کوئی عورت کسی مرد کی امامت نہ کرے

مسلک احناف میں عورت کا امام بننا جائز نہیں ( بہار شریعت حصہ اوّل ج ۱ ص ۲۴۰)

اور اسی طرح جماعت کے لیے گھر سے نکلنا بھی جائز نہیں لیکن اگر گھر میں جماعت سے پڑھے تو صرف مقتدی صرف عورتیں ہو تو مرد کا امام بننا جائز نہیں لیکن اگر عورتوں میں اسکی نسبی محارم ہو یا بی بی یا کوئی مرد ہو تو مرد کا امام بننا جائز ہے

( بہار شریعت حصہ سوم ج ۱ ص۵۸۴)

لیکن عورتوں کے امام کے لئے مرد ہونا شرط نہیں عورت بھی ہوسکتی ہے اگرچہ مکروہ ہے

(بہار شریعت حصہ سوم ج ۱ ص ۵۶۱)


لہٰذا تمام متقدمین اور متأخرین احناف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مرد کی نماز عورت کے پیچھے جائز نہیں ہے،بلکہ صرف عورتوں کی جماعت بھی مکروہ تحریمی ہے

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے

المرأة تخالف الرجل في مسائل ولا تؤم الرجال

(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ص 59 ط دارالکتب العلمیۃ)

ترجمہ عورت (کا معاملہ )مرد سے چند مسائل میں مختلف ہے ان میں سے ایک یہ کہ عورت مرد کی امامت نہیں کرسکتی

اب آئے صورتِ مسئولہ میں ذکرکردہ حدیث شریف مع سند و متن کے یہ ہے

حدثنا الحسن بن حماد الحضرمي حدثنا محمد بن فضيل عن الوليد بن جميع عن عبد الرحمن بن خلاد عن أم ورقة بنت عبد الله بن الحارث بهذاالحديث والأول أتم قال وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزورها في بيتها وجعل لها مؤذنا يؤذن لها وأمرها أن تؤم أهل دارها قال عبد الرحمن فأنا رأيت مؤذنها شيخا كبيرا

(حدیث نمبر ۵۲۱ سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب اقامت النساء)

حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اسی طرح روایت ہے مگر پہلی حدیث مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے گھر ان سے ملنے جاتے تھے اور ان کے لئے ایک مؤذن مقرر کر دیا تھا جو ان کے لئے اذان دیتا تھا اور آپ ﷺ نے ان کو اہل خانہ کی امامت کی اجازت دی تھی۔ عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے ان کے مؤذن کو دیکھا وہ بہت بوڑھے تھے

یہ حدیث شریف پانچ مختلف طروق سے مروی ہے جسکے دو طرق امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں ( جن میں سے اوپر مذکور ہے ) اور باقی ۳ طرق 

امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں اور صاحب دار القطنی نے اپنی سنن میں نقل فرمائے ہیں

غور طلب امر یہ ہے کہ صاحب دار القطني کے علاوہ چاروں روایت میں مطلقا تؤم اهل دارها مطلق آیا ہے

یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اہل خانہ کی امامت کا حکم دیا تھا اب یہ اہل خانہ کون تھے؟ (مرد یا صرف عورتیں) دار القطنی کی حدیث کے علاوہ باقی تمام طروق میں اس کا ذکر متعین نہیں ہے

صرف سنن دارقطنی کی مذکورہ حدیث میں اس کی صراحت ہے وتؤم نساءها کہ حضور اکرم ﷺنے ام ورقہ کو اپنے محلہ کی خواتین کی امامت کا حکم دیا تھا مردوں کی امامت کا حکم نہیں دیا تھا

جب ایک روایت میں اس کی قید آگئی تو اب بقیہ تمام مطلق روایات کو اسی پر محمول کیا جائے گا، لہذا حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبیلے کی خواتین کی امامت کرتی تھی مرد اس میں شریک نہیں ہوتے تھےاور شوافع وحنابلہ کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے جائز ہے وہ حضرات اسی حدیث سے استدلال کرتے ہیں احناف کے نزدیک عورتوں کی امامت عورتوں کے لئے بھی مکروہِ تحریمی ہے خلاصہ کلام

عورت کا مرد کے لئے امام بننا قرآن حدیث اور اجماع امت ہر ایک کے خلاف ہے اورسوال میں ذکرکردہ روایت کی سند اور متن میں شدیداضطراب ہے اس حدیث کو عورت کا مردوں کی امامت کرنے کےجواز پر دلیل بنانا درست نہیں ہے جیسا کہ تفصیلاً ذکر ہوا اگر بالفرض اس حدیث کو صحیح مان بھی لیاجائے تب بھی زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے عورت کاعورتوں کی امامت کرنا ثابت ہوگا جبکہ عورت کاعورتوں کی امامت کرنا دوسرے دلائل کی روشنی میں مکروہ تحریمی ہے

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب 

کتبہ نہال اشرف انصاری المختصص في الفقه الحنفي بجامعہ السعدیہ العربيه كيرلا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ