Headlines
Loading...



مسئلہ سوال دور حاضر میں ایسا بھی دیکھا جا رہا ہے کہ بعض جگہوں پر عورتوں کا دودھ کشید کر کے ایک جگہ جمع کیا جاتا ہے جس کو ملک بینک یا دودھ بینک کہا جاتا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللہم ہدا یۃ الحق والصواب

عورتوں کا دودھ کشید کر ملک بینک یا دودھ بینک میں جمع کرنا جائز ہے جب کہ محرمات کا ارتکاب نہ کرے مثلا یہ کہ عورت خود یا اس کا شوہر پستان سے دودھ نکالے یا دودھ نکالنے والی مشین کا پائپ عورت خود یا اس کا شوہر لگا کر ایسی جگہ نکالے جہاں کوئی نہ ہو کیونکہ پستان موضع ستر ہے اور اس کا چھپانا واجب اورجیسا کہ رد المختار میں ہے

یجب الستر کہ بحضرۃ الناس اجماعا

(رد المحتار جلد دوم صفحہ نمبر 75/ مطلب فی الستر العورت دارالکتب العلیمیہ)

اور یہ بھی شرط ہے کہ دودھ بیچا نہ جائے کیونکہ دودھ عورت کا جز ہے اور اس کی بیع جائز نہیں ہے

جیسا کہ ہدایہ آخرین میں ہے

(لابیع لبن امرأۃفی قدح) لانہ جزء الآدمی وھوبجمیع اجزائہ مکرم مصون عن الابتذال بالبیع ولافرق فی ظاہر الروایۃ بین لبن الحرۃ والامۃ 

(ہدایہ آخرین کتاب البیوع صفحہ ٥٥/کتب خانہ رحیمیہ)

اور یہ بھی ضروری ہے کہ جن جن عورتوں کا دودھ نکالے ان ان کا نام اور مکمل تفصیل لکھ کر اس بچے کے ماں باپ کو دے دے جن کو وہ دودھ پلایا جائے اسی طرح اس بچے کا نام اور مکمل تفصیل لکھ کر ان عورتوں کو دے دے جن کا دودھ جمع کیا گیا ہے کیونکہ اس سے حرمت رضاعت کا حکم ثابت ہوتا ہے لہذا مکمل تفصیل محفوظ رکھنا ضروری ہے

مذکورہ شرطوں کے ساتھ عورتوں کا دودھ کشید کر کے ملک بینک یا دودھ بینک میں جمع کرنا جائز ہے

اگر مخلوط دودھ کسی شیر خوار یعنی ڈھائی سال تک کے بچے کو پلا دیا جائے تو حکم رضاعت ثابت ہو جائے گا۔

جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے

وقت الرضاع فی قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی مقدار بثلاثین شہرا 

(جلد اول کتاب الرضاع صفحہ ٣٤٢/زکریابکڈپو)

پھر اگر چند عورتوں کے دودھ کو جمع کیا گیا ہو تو رضاعت کس سے ثابت ہوگی؟

اس بارے میں اختلاف ہے بعض نے کہا جس کا دودھ زیادہ ہو رضاعت اس سے ثابت ہوگی مگر اکثر مشائخ اس جانب ہیں کہ دودھ کم ہو یا زیادہ جن جن عورتوں کا دودھ جمع کیا جائے ان تمام سے رضا ثابت ہو جائیں گی

جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے

واذختلط لبن امرتین تعلق التحریم باغلبھما عندھماوقال محمد رحمہ اللہ تعالی علیہ تعلق بھماکیفماکان وھوروایۃ عن أبی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی علیہ وھواظھرواحوط ھکذافی التبیین قیل الاصح قول محمد رحمہ اللہ تعالی علیہ کذا فی شرح مجمع البحرین لابن المالک 

(جلد اول صفحہ ٣٤٤/ کتاب الرضاع/زکریابکڈپو)

اسی طرح در مختار میں ہے

وعلق محمدالحرمۃ بالمرءتین مطلقاً قیل ھوالاصح

اس کے تحت رد المختار میں ہے

وعلق محمد الخ)مقابل لماافادہ کلام مصنف من انہ لو کان لبن احدالمرءتین غالبا تعلق التحریم فقط ولوستویا تعلق بھما(مطلقاً)ای تساویااوغلب احدھمالان الجنس لایغلب الجنس (قیل ھوالاصح)قال فی البحر وھوروایۃ عن أبی حنیفۃ قال فی الغایۃ وھواظھرواحوط وفی شرح المجمع قیل انہ الاصح ؛ فی الشرنبلالیۃ: ورجح بعض المشائخ قول محمد الیہ مال صاحب الھدا یۃ لتاخردلیل محمدلمافی الفتح  اھ

(جلد ٤ کتاب النکاح/ باب الرضاع /صفحہ ٤١٢/زکریابکڈپو)  واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ غلام آل رسول رضوی مظہری متعلم : دورۃالتخصص فی الفقہ الحنفی جامعہ سعدیہ عربیہ (کیرلا)

الجواب صحیح محمد اشفاق احمد رضوی مصباحی صدر شعبۂ افتاء جامعہ سعدیہ عربیہ (کیرلا) 

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ