Headlines
Loading...
بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا تو میراث کا کیا حکم؟

بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا تو میراث کا کیا حکم؟


مسئلہ بیٹا اپنی گاڑی پر سوار ہو کر جارہا تھا ایک جانب میں باپ کھڑا تھا اچانک گاڑی باپ سے ٹکرا گئی اور باپ مر گیا تو بیٹا اپنے باپ کا وارث ہوگا یا نہیں ؟

الجواب اللهم ھدایةالحق والصواب

 یہ صورت قائم مقام قتل خطا کی ہے

بہار شریعت میں ہے

 چوتھی قسم قائم مقام خطا جیسے کوئی شخص سوتے میں کسی پر گر کر پڑا اور یہ مر گیا اسی طرح چھت سے کسی انسان پر گرا اور مر گیا قتل کی اس صورت میں بھی وہی احکام ہیں جو خطا میں ہیں یعنی قاتل پر کفارہ واجب ہے اور اس کے عصبہ پر دیت اور قاتل میراث سے محروم ہوگا

(حصہ ۱۸ ص ۷۷۹ )

فتاوى هندية میں ہے وأما جرى مجرى الخطا فهو مثل النائم ينقلب على رجل فيقتله فليس هذا بعمد ولاخطا كذا فى الكافى وكمن سقط من سطح على انسان فقتله أو سقط من يده لبنة أو خشبة واصابت انسانا وقتله أو كان على دابة فوطئت دابته انسانا هكذا فى المحيط وحكمه حكم الخطا من سقوط القصاص ووجوب الدية والكفارة وحرمان الميراث كذا فى الجوهرة النيرة

(ہندیہ کتاب الجنایات ج ٦ ص ۳ )

اور وہ قتل جو قائم مقام قتل خطا کے ہو اس میں قاتل پر کفارہ واجب ہوتا ہے اور جس صورت میں دیت یا کفارہ واجب ہو وہ اپنے اس مہلوک مورث کی میراث سے محروم ہوتا ہے

سراجی میں ہے

والقتل اللذى يتعلق به وجوب القصاص والكفارة

موانع ارث چار ہیں ان میں سے ایک مورث کو قتل کرنا جس سے قصاص یا کفارہ کا وجوب متعلق ہو

ملتقى الابحر میں ہے

وقيل يضمن النفحة ايضا ولاكفارة عليهما ولاحرمان إرث أو وصية بخلاف الراكب

اس کی شرح مجمع الانھر میں ہے 

( ولاكفارة عليهما ) أي على السائق والقائد ( ولاحرمان إرث أو وصية) لأنهما يختصان بالمباشرة وليسا من أحكام التسبيب۔ ( بخلاف الراكب) فيما اوطئته الدابة بيدها أو رجلها فإن عليه الكفارة وحرمان الإرث و وصية وذلك لتحقق المباشرة منه

( مجمع الانهر كتاب الديات ج ٤ ص٢٩٧ دار احياء التراث العربى )

بدائع صنائع میں ہے

وكذلك الراكب اذا كان يسير فى الطريق العامة فوطئت دابته رجلا بیدھ أو رجلها لوجود معنى الخطا في هذا القتل وحصوله على بثقلها على سبيل المباشرۃ لان ثقل الراكب على الدابة والدابة آلة له فكان القتل الحاصل بثقلها مضافا الى الراكب فكان قتلا مباشره

( بدائع صنائع كتاب الديات ج ٧ ص ٢٧١/ ٢٧٢ دار الكتب العلميه) 

فتاوى ہنديہ میں ہے

وعلى الراكب الكفارۃ فى الوطاء لا على السائق والقائد وكذا يتعلق بالوطء فى حق الراكب حرمان الميراث والوصية دون السائق والقائد هكذا فى التبيين

( فتاوى ہندیہ كتاب الجنايات جلد ٦ ص ۵۰ زکریا )

درالمختار میں ہے 

( فى السير فى ملكه لم يضمن ربها الا فى الوطء وهو راكبها ) مباشرۃ لقتلہ بثقلہ فیحرم المیراث

رد المحتار میں ہے قوله ( فيحرم من الميراث ) انه قاتل حقيقه وعليه الكفارة

( ردالمحتار كتاب الديات ج ١٠ ص ٢٧٢ / ٢٧٣ )

وفيه أيضاً قوله ( والراكب عليه الكفارة فى الوطء ) أي لو وطئت إنساناً وهو راكبها وكذلك الرديف فإنهما مباشران للقتل حقيقة بثقلهما فيلزمها الكفارة ويحرمان من الميراث كالنائم اذا انقلب على إنسان ( صفحه ٢٧٤ )

بحرالرائق میں ہے

اما اذا كان فى ملكه لا يضمن الا في الايطاء وهو راكبها لانه فعل منه مباشرة حتى يحرم به عن الميراث وتجب عليه الكفارة بشرط التعدى فصار كحفر البئر وفى المباشرة لا يشترط ذلك

( بحرالرائق كتاب الديات جلد ٩ ص ١٢٨ المكتبة التهانوية )

بہار شریعت میں ہے

شارع عام پر چلنے والا سوار اپنی سواری سے ہونے والے نقصان کا ضامن ہوگا سوائے اس نقصان کے جو لات مارنے یا دم مارنے سے ہو، رسی پکڑ کر آگے چلنے والے کا بھی یہی حکم ہے ہاں کچل دینے کی صورت میں راکب پر کفارہ اور حرمان میراث بھی ہے لیکن قائد پر نہیں ہے

( حصہ ۱۸ ص ۸۸۷ مکتبہ المدینہ )

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ فرید علی حضوری متعلم دورۃالتخصص جامعہ سعدیہ عربیہ کیرلا

الجواب صحیح محمد اشفاق احمد رضوی مصباحی صدر شعبۂ افتاء جامعہ سعدیہ عربیہ کاسرگوڈ کیرلا

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ