Headlines
Loading...



مسئلہ ۲۷۴: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ میں (۱): بی بی ساجدہ زوجہ شیخ جنت علی با وجود حسن سلوک رشتۂ زوجیت کے اور باہمی میل و محبت کے اور خوراک و پوشاک پانے کے اپنے شوہر موصوف سے خلع چاہتی ہے اس صورت میں وہ اپنے شوہر سے دین مہر لینے کی حقدار ہے یا نہیں اور شوہر اپنی شریک حیات کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس صورت میں شوہر کیلئے کیا اختیارات حاصل ہیں آیا وہ اپنی زوجہ کو طلاق دیدے اور اسکا دین مہر بھی ادا کرے یا نہیں ؟ (۲) ہمارے محلہ کے رئوسائے عظام اس بات پر مصر ہیں کہ شیخ جنت علی تم اپنی بیوی کو طلاق دیدو۔ اور تم اس کا دین مہر ادا کردو بلکہ عدم واقفیت کی بناء پر رئوساء نے طلاق بھی دلوادیا اور اسکے دین مہر کے عوض میں دو بیگھ زمین لکھوالیا ہے اور کہتے ہیں تم ہم لوگوں کو فتویٰ منگا کر دکھائو کہ خلع کی صورت میں عورت دین مہر پانے کی حقدار ہے یا نہیں ؟ (۳) ہمارا گمان غالب ہے کہ خلع کی صورت میں زوجہ دین مہر لینے کی حقدار نہیں ہے چونکہ میں اسےرکھنے پر آمادہ تھا۔ نہ معلوم لوگوں کے بہکانے یا کسی وجہ سے ہماری زوجہ خلع کے لئے تیار ہوئی اور پنچایت میں یہ مقدمہ پیش ہوا اور مجھ سے جبراً طلاق دلوادیا گیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ دین مہر کے بدلے میں ہماری زمین دو بیگھ ضبط کر کے لکھوالی گئی ہمارے تینوں سوالوں کے جوابات بحوالۂ کتب ِفقہ صاف صاف و وضاحت کے ساتھ عنایت فرمائیں تاکہ میں اپنے حق کو پہنچوں ۔ اس لئے استفتاء ہٰذا پیش خدمت ہے

مسئولہ شیخ جنت علی نہانگیر پور بیسی قدیم باشندہ موضع ڈنگراہا مورخہ۱۳؍ربیع الثانی ۱۹۷۴؁ء

الجواب: (۱): شوہر کی رضا مندی کے بغیر نہ خلع ہو سکتا ہے نہ طلاق۔ چونکہ شریعتِ مطہرہ میں طلاق و خلع کا پورا اختیار شوہر کو ہے حتیّٰ کہ بیوی دین مہر سے دوگنا مال بلکہ ہزار گنا مال بھی شوہر کو دینے پر تیا ر ہو اور کہے کہ مجھ سے اتنے مال کے بدلے میں خلع کر لو لیکن شوہر خلع کرنے پر راضی نہ ہو تو خلع نہیں ہو سکتا حدیث شریف میں وارد ہے الطلاق لمن اخذ بالساق یعنی جس نے پوری ذمہ داری ہر بات کی لی ہے اسی کو طلاق کا اختیار ہے جب میاں بیوی خوشگوار زندگی گزارتے ہوں تو خلع اور طلاق کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ خلع اور طلاق کی ضرورت تو باہمی ناراضی اور رنج و کشیدگی اور میاں بیوی کی نا موافقت کی صورت میں واقع ہوتی ہے جب زوجین میں موافقت ہو تو شوہر نہ طلاق دے نہ خلع کرے فان مبنی النکاح الوصل والإتحاد لا الإنقطاع والإفتراق یعنی نکاح کی غرض ہی یہ ہے کہ میاں بیوی کے درمیان اتحاد اور میل جول اور وصل ہو دونوں کی علیٰحدگی اور جدائی نکاح کی غرض سے خارج ہے۔ قال اللہ تعالی {فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہَٖ} [البقرۃ:۲۲۹] (تو اگر تمہیں ڈر لگے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کے حدود کو تو ان پر کچھ الزام نہیں اس میں جو عورت نے اپنے چھٹکارے کے لئے دیا)۔ جب باہمی رضا مندی کی شکل میں طلاق و خلع منع ہے پھر دین مہر مؤجل کی فوری ادائیگی کا سوال ہی مہمل ہے۔ البتہ شوہر پر خلوتِ صحیحہ کے بعد ہی کل مہر واجب ہوجاتا ہے وہ اگر چاہے تو مہر مؤجل اپنی حیات ہی میں قبل طلاق و خلع و موت بھی ادا کر کے دین مہر کی ادائیگی سے نجات حاصل کر لے کہ یہی بہتر ہے۔ ورنہ بعد طلاق و تفریق و موت کے مہر کا ادا کرنا شوہر پر واجب ہو جاتا ہے اور بیوی دعویٰ کر کے وصول کر سکتی ہے بھاگل پور میں عام طریقہ مہر مؤجل ہی کا ہے اس لئے مہر مؤجل کا لفظ لکھا گیا ہے واللہ تعالی أعلم

(۲) و (۳) محلہ کے رئیسوں اور اہل پنچایت نے اگر واقعی آپکی بیوی کو بہکایا ہو کہ تم شوہر سے خلع کرلو اور پھر اصرار بلکہ جبر و اکراہ کر کے آپ سے آپکی بیوی کو طلاق دلوا کر آپکی دو بیگھہ زمین دین مہر میں لکھوادی ہو تو ان رئیسوں اور پنچایت کے لوگوں کا یہ فعل ناجائز و حرام ہوا یہ لوگ گناہ عظیم کے مرتکب ہوئے۔ اسلئے کہ میاں بیوی کے درمیان تفریق اور جدائی کرنے اور کرانے والا سخت گنہگار اور مستحق عذاب ہے۔ قال اللہ تعالی {مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ} [البقرۃ:۱۰۲] (جس سے جدائی ڈال دیں میاں اور اس کی بیوی کے درمیان)۔ جبر و اکراہ سے طلاق دلوانے والے اور بیوی کو شوہر کے خلاف بہکانے والے اور جبراً آپکی دو بیگھہ زمین کو دین مہر میں لکھانے والے اپنے اس گناہ سے توبہ کریں لیکن جبر و اکراہ کے با وجود آپکی بیوی پر طلاق واقع ہو گئی۔ آپ نے جتنی اور جیسی طلاق دی ہو وہ واقع ہوئی یہ صورت طلاق کی ہے اسکو خلع کہنا یا خلع سمجھنا صحیح نہیں خلع تو یہ ہے کہ شوہر کو جو حق و اختیار ملک نکاح سے حاصل ہوا ہو اسکو کسی مال و جائداد کے بدلے میں بیوی سے لے کر شوہر بلفظ خلع وغیرہ ختم و زائل کر دے خلع میں بیوی سے کبھی بعض دین مہر اور کبھی کل دین مہر اور کبھی کل دین مہر کے ساتھ ساتھ مزید روپیہ یا جائداد شوہر لیا کرتا ہے یہ زوجین کی رضا مندی پر موقوف ہے وہ خلع کرانیکے لئے جتنے پر راضی ہو جائیں پہلی صورت میں جب کہ بعض دین مہر پر خلع کیا جائے تو شوہر سے باقی دین مہر بیوی لینے کی مستحق ہے اور دوسری صورت میں دین مہر یا اسکا جزو بیوی لینے کی مستحق نہیں اور تیسری صورت میں بیوی کو دین مہر چھوڑنے کے بعد مزید روپیہ یا جائداد اپنی دینی ہوگی فتاویٰ عالمگیری جلد اول مصری ص ۴۲۴ میں ہے

الخُلع ازالۃ ملک النکاح ببدلٍ بلفظ الخُلع کذا فی فتح القدیر

لفظ خلع بول کرما ل کے بدلے میں ملک نکاح کوزائل کرنے کا نام خلع ہے ایسا ہی فتح القدیر میں ہےاسی کے ص ۴۴۶ میں ہے

ما جاز أن یکون مہرا جاز أن یکون بدلا فی الخلع کذا فی الھدایۃ

جوشرعاً مہر ہو سکتا ہے وہ خلع میں بدل ہو سکتا ہے ایسا ہی ہدایہ میں ہے

در مختار مصری جلد ثانی ص ۷۶۶ و ص ۷۶۷ میں ہے

(ھو) شرعا (ازالۃ ملک النکاح) المتوقفۃ علی قبولہا بلفظ الخلع أو ما فی معناہ بما یصلِح للمہر ولا باس بہ عند الحاجۃ للشقاق بعدم الوفاق

اصطلاحِ شرع میں خلع ملک نکاح کے ازالہ کو کہتے ہیں یہ ازالہ عورت کے قبول کرنے پر موقوف ہے۔ خلع یا اس کے ہم معنیٰ الفاظ سے ایسی چیز کے عو ض جو مہر بننے کی صلاحیت رکھے ضرورت کے وقت اس میں کوئی مضائقہ نہیں موافقت نہ ہونے کی صورت میں اختلاف کی وجہ سے

رد المحتار جلد ثانی ص ۷۶۷ میں ہے

و فی القہستانی عن شرح الطحاوی السنۃ إذا وقع بین الزوجین اختلاف أن یجتمع أہلہما لیصلحوا بینھما فان لم یصطلحا جاز الطلاق والخلع اھ ط و ھذا ھوالحکم المذکور فی الآیۃ

شرح طحطاوی سے قہستانی میں ہے سنت یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوجائے تو دونوں میں صلح کرانے کے لئے دونوں کے رشتہ دار جمع ہوں اگر یہ دونوں صلح پر تیار نہ ہوں تو طلاق اور خلع جائز ہے آیت کے اندر بھی یہی حکم مذکور ہے واللہ تعالی أعلم

نقل شدہ حبیب الفتاوی جلد سوم صفحہ نمبر 03_04_05

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ