جھوٹی گواہی دینے والے کی امامت کا حکم
علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں جو حسب ذیل درج ہے کہ
زید پیش امام صاحب ہیں انہوں نے قبرستان کے درختوں کے معاملہ میں غلط گواہی دی اور اپنی جانب سے یہ شہادت دی کہ قبرستان کے درخت کافروں کے ہیں کسی نے ان کی گواہی کو تسلیم نہیں کی اور ان درختوں کو گورنمنٹی قرار دیا اس غلط گواہی پر جماعت نے امام صاحب سے کہا کہ آپ کافر کے حق میں غلط گواہی نہ دو اس کے برخلاف امام صاحب نے کافر کے حق میں گواہی دی تو از روئے شرع امام صاحب کے اوپر کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا
المستفتی بابو بھائی
مقام و ڈاکخانہ رہکبات ضلع ستنا (ایم پی)
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جھوٹی گواہی دینا اشد گناہِ کبیرہ شدید عظیم گناہ ہے‘ اگر شرعاً ثابت ہے کہ امامِ مذکور نے جھوٹی گواہی دی تو فاسقِ معلن ہے اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کی اقتدا میں نماز مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہے جب تک توبہ نہ کرے اور صلاحِ حال ظاہر نہ ہو اسے امام نہ کریں
نقل شدہ فتاوٰی تاج الشریعہ جلد چہارم صفحہ نمبر 108
واللہ تعالٰی اعلم
فقیر محمد اختر رضا خاں ازہری قادری غفرلہٗ
۱۷؍جمادی الآخرہ ۱۴۰۴ھ
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ