شرعی فیصلہ کو نہ ماننے والے گنہگار مستحقِ نار ہیں
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ
مسجد کے منتظمین نے بغیر بستی والوں کے مشورے سے رمضان شریف کے مہینے میں مسجد کے امام کو مدرسے کا چندہ کرنے کے لئے باہر بھیج دیا‘ وہ عید کو بھی نہیں پہنچے‘ عید کے بعد بستی والوں نے یہ اعتراض کیا کہ ہر جگہ پر لوگ اپنی اپنی مسجدوں کو آباد کرتے ہیں آپ نے امام ہوتے ہوئے بھی ہماری مسجد کو خالی کردیا اس کی کیا وجہ ہے؟ چودھری صاحب نے یہ جواب دیا کہ ہم امام صاحب کا حساب کر چکے آپ لوگ امام کا انتظام کیجئے یہ برادری کے چودھری نے مسجد کے اندر کھڑے ہو کر کہا اور یہ مسجد کے متولی بھی ہیں انہوں نے مسجد کی گولک اور چابی بھی وہیں رکھ دی اور یہ کہا لیجئے اُٹھا لیجئے اور وہ اس سے الگ ہوگئے۔ دوسری برادری کے کچھ افراد وہاں پر موجود تھے انہوں نے گولک اور چابی اُٹھا لی اور امام کا بھی انتظام کرلیا۔ اب مسجد کے سابقہ منتظم لوگوں نے خرافات کرنا شروع کردیا کہ ہم ان امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھیںگے الزام اور بہتان لگانا شروع کردیا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی چھوڑ دی طرح طرح کے شر پیدا کرتے رہے جھگڑا بڑھاتے رہے اب موجودہ منتظمین نے مجبور ہو کر بستی میں چندہ کرکے علمائے کرام کو بلوایا ان کے سامنے امام صاحب کے اوپر جو الزام بہتان لگائے تھے وہ پیش کئےشرعی طور پر ثبوت نہ ملنے سے علمائے کرام نے امام صاحب کو بہتان سے صاف بتایا اور آپس میں اتفاق کردیا یہ اتفاق مسجد میں بیٹھ کر کرایا تھا‘ علمائے کرام کے تشریف لے جانے کے بعد دوسرے دن صبح کو ان لوگوں نے پھر وہی پہلے والی خرافات شروع کردی اور علمائے کرام کے فیصلے کو نہ مانا خداورسول کا واسطہ دے کر یہ بات طے ہوئی تھی اب ان لوگوں نے خدا و رسول کے واسطے کو نہ مانا مسجد میں بیٹھ کر یہ باتیں طے ہوئی تھیں خدا کے گھر کا ان لوگوں نے ادب لحاظ نہ کیا ایسے لوگوں کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ حکمِ شریعت سے مطلع فرمایئے
المستفتی محمد اشفاق (بقلم خود) موضع بھکاری پور ضلع پیلی بھیت (یوپی)
الجوابـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اگر یہ واقعہ ہے تو وہ لوگ جو شرعی فیصلہ کو نہیں مان رہے ہیں سخت گناہ گار مستحقِ نار ہیں توبہ کریں۔ واللہ تعالٰی اعلم
نقل شدہ فتاوٰی تاج الشریعہ جلد چہارم صفحہ نمبر 108
فقیر محمد اختر رضا خاں ازہری قادری غفرلہٗ
۳؍ذی الحجہ ۱۴۰۰ھ
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ