
(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ. زید کہتا ہے کہ اللہ پاک سے صبر مانگنا درست نہیں ہے بلکہ اس سے عافیت کا سوال کرنا چاہیے کیا وہ درست کہتا ہے؟
(جواب) کئی اصحاب جیسے عباس ابن عباس معاذ بن جبل انس، جابر رضی الله عنهم سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رب تعالی سے عافیت کا سوال کرنے کی ہدایت فرمائی پس ہمیں چاہیے کہ ہم بلا سے عافیت مانگیں لیکن جب کسی آزمائش اور بلاء سے سامنا ہوتو چاہیے کہ عافیت کے ساتھ صبر بھی مانگا جائے اور اس سے بھی مدد لی جائے کہ عافیت کا ملنا کبھی کبھی فوری نہیں ہوتا یہ ہمیشہ سے صلحاء کی سنت کی ہے قرآن مجید میں ہے کہ جب مؤمنین کے لشکر کا سامنا جالوت اور اس کے لشکر سے ہوا اور جب جادوگر ایمان لائے اور فرعون نے انہیں ہاتھ پیر کاٹنے کی دھمکی دی تو ان کی دعا تھی رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا (سورۃ البقرۃ ٢٥٠ سورۃ الأعراف ١٢٦) اے رب ہمارے ہم پر صبر انڈیل دے اور صحیحین میں نبی کریم ﷺ سے مروی ہے کہ فرمایا أيها الناس لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله العافية فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف (صحيح البخاری م: ٢٩٨٢) اے لوگو دشمن سے جنگ کی خواہش نہ کرو اور الله تعالی سے عافیت مانگو پھر اگر لڑنا پڑے تو صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے میں ہے
غالبا زید کو وہم اس حدیث سے ہوا ہوگا مسند احمد وسنن ترمذی میں معاذ رضی الله عنهم سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا اللهم إني أسألك الصبر الٰہی میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں فرمایا سألت البلاء فسل الله العافية کہ تو آفت مانگ رہا ہے الله سے عافیت مانگ (مسند أحمد م ٢٢٠٥٦ سنن الترمذی م: ٣٥٢٧ الأدب المفرد م: ٧٢٥ غریب وسندہ لا بأس به) وقال علی القاری الحنفی ومحل هذا إنما هو قبل وقوع البلاء وأما بعده فلا منع من سؤال الصبر بل مستحب لقوله تعالى {ربنا أفرغ علينا صبرا} یعنی اس کا محل تو تبھی ہے کہ بلا واقع نہ ہوئی ہو رہا اس کے بعد صبر کا سوال کرنا تو یہ ممنوع نہیں بلکہ مستحب ہے اللہ تعالی کے اس فرمان کے سبب (اے ہمارے رب ہم پر صبر انڈیل دے) (مرقاۃ المفاتیح ٣٤٦/٥)
امام مناوی ناقل ابو الخیر الاقطع رحمة الله عليهما کے کلام سے ہے لا تسألوا الله أن يصبركم وسلوه اللطف بكم لأن تجرع مرارة الصبر شديد لمثلنا فإن زكريا لما بلغ المنشار لرأسه أن لشدة الوجع فأوحى الله إليه وعزتى وجلال لو صعدت منك أنة ثانية لا محون اسمك من ديوان النبوة (الكواكب الدارية ٥٨٩/١) اللہ سے یہ نہ مانگو کہ وہ تمہیں صبر عطا کرے بلکہ یہ مانگو کہ وہ تمہارے ساتھ لطف وکرم کرے کیونکہ صبر کی تلخی ہم جیسے لوگوں کے لیے بہت سخت ہے زکریا علیہ السلام جب آزمائش میں مبتلا ہوئے اور آرے کو اپنے سر تک پہنچتا پایا تو درد کی شدت سے ایک آہ نکل گئی اللہ نے ان کی طرف وحی کی قسم ہے میری عزت اور جلال کی اگر تمہارے منہ سے ایک اور آہ نکلتی تو میں تمہارا نام نبوت کے دفتر سے مٹا دیتا
والله تعالی اعلم
کتبہ ابن علیم المصبور الرضوی العینی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ