Headlines
Loading...


السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ


📜سوال__________↓↓↓↓

کیا فرماتے ہیں علمائے اسلام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کسی بھی جانور جیسے چڑیا یا طوطا پرندے گھر میں رکھنا یا پالنا کیسا ہے؟ بحوالہ جواب عنایت فرماکر شکریہ کا موقع دیں عین نوازش ہوگی

✒️العارض محمد خورشید رضا اسمعیلی

وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ

 الجواب بعون الملک الوھاب

گھروں میں شوقیہ پرندے رکھنا اور پالنا جائز ومباح ہے بہ شرطیکہ ان کی غذا اور سردی گرمی اور بارش سے حفاظت کا مناسب بندوبست کیا جائے اور جب سب اہل خانہ کہیں باہر جائیں تو ان کی غذا اور دیکھ ریکھ کوئی مناسب نظم کرکے جائیں حدیث شریف میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے بھائی ابو عمیر نے ایک چڑیا پال رکھی تھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لاتے تو پوچھتے تھے  يَا أَبَا عُمَيْرٍ مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه  اھ یعنی اے ابو عمیر! نغیر ( ایک پرندہ ) کا کیا کیا ؟ وہ بچہ اس پرندہ سے کھیلتا تھا اھ

( 📚بخاري الصحيح 5: 2291 رقم: 5850 دار ابن کثير اليمامة بيروت / مسلم الصحيح 3: 1692 رقم: 2150 دار احياء التراث العربي بيروت )

مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت انس کے گھر میں ان کے بھائی نے ایک پرندہ پال رکھا تھا حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں دریافت فرماتے مگر آپ نے اسے رکھنے سے منع نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ پرندوں کو گھر میں پالنے کی اجازت ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ إن في الحديث دلالة على جواز إمساك الطير في القفص ونحوه، ويجب على من حبس حيواناً من الحيوانات أن يحسن إليه ويطعمه ما يحتاجه لقول النبي  اھ یعنی اس حدیث سے پرندے کو پنجرے وغیرہ میں بند کرنے کے جواز پر دلیل ملتی ہے۔ پرندے کو رکھنے والے پر واجب ہے کہ وہ اس کے کھانے وغیرہ کا خصوصی اہتمام کرے اھ 

( 📗عسقلانى فتح البارى ج 10 ص 584  دار المعرفة بيروت )

اور در مختار مع رد المحتار میں ہے کہ  يكره إمساك الحمامات إن كان يضر بالناس و أما للاستئناس فمباح كشراء عصافير ليعتقها إن قال من أخذها فهي له ولا تخرج عن ملكه بإعتاقه وقيل يكره لأنه تضييع المال اھ ( در المختار مع رد المحتار ج 9 ص 575 کتاب الحظر و الإباحة ، باب الاستبراء وغیرہ فصل فی البیع وغیرہ مکتبة زکریا دیوبند ) اور رد المحتار میں ہے کہ قوله  وأما للاستئناس فمباح قال فی المجتبی رامزاً لا بأس في حبس الطیور والدجاج فی بیته ولکن یعلفھا الخ ، وفي فتاوی قاری الھدایة سئل ھل یجوز حبس الطیور المفردة وھل یجوز عتقھا وھل في ذلک ثواب ؟ الخ فأجاب یجوز حبسھا للاستئناس بھا وأما إعتاقھا فلیس فیہ ثواب الخ

( 📔در مختار مع رد المحتار ج 9 ص 575 )


واللہ اعلم بالصواب

کتبہ حضرت علامہ ومولانا مفتی محمدکریم اللہ رضوی صاحب قبلہ مدظلہ العالی النورانی خادم التدریس دار العلوم مخدومیہ اوشیورہ برج جوگیشوری ممبئی

🌹ماشاءاللہ بہت عمدہ جواب🌹 ✅الجوابـــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب وامام جامع مسجد مہاسمند(چھتیس گڑھ)


⏰مؤرخہ: ۱۵ رجب المرجب ١٤٤١؁ھ

شائع کردہ سنی مسائل شرعیہ گروپ

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ