کرامًا کاتبین نبیوں کے ساتھ مقرر تھے یا نہیں؟
(مسئلہ) کیا فرماتے ہیں علمائے دین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کرامن کاتبین نبیوں کے ساتھ مقرر کۓ گۓ تھیں یا نہیں و سوال قبر ہوتا تھا یا نہیں حوالے کے ساتھ جواب تحریر فرمائیے عین کرم ہوگا سائل صغیر احمد کا لینجر ضلع باندہ یو پی
(الجواب) انبیاء کرام سے قبر میں سوالات نہیں ہوتے نہ ہی وہ ہماری طرح کسی اخروی آزمائش میں مبتلا ہوں گے اور جب حساب کتاب ونامہ اعمال نہیں تو ضرور ان کے لیے اعمال کی کتابت نہ ہوگی
قال الحصكفي في اللدر والكمال ابن الهمام في المسايرۃ: الأصح أن الأنبياء لا يسألون ولا أطفال المؤمنين واختلف في أطفال المشركين. (المسامرۃ ص: ٢٢٨ شرح رمضان آفندی ص ٣٤٨ حاشية ابن عابدین ٨٢/٣) امام حصکفی در مختار میں اور امام ابن ہمام مسایرہ میں فرماتے ہیں: اصح یہ ہے کہ انبیاء علیهم السلام اور اطفال مسلمین سے سوالات قبر نہ ہوں گے اور اطفال مشرکین کے بارے میں اختلاف ہے
اور امام سیوطی فرماتے ہیں ﻗﺎﻝ اﻟﻨﺴﻔﻲ ﻓﻲ ﺑﺤﺮ اﻟﻜﻼﻡ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻭﺃﻃﻔﺎﻝ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻟﻴﺲ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺣﺴﺎﺏ ﻭﻻ ﻋﺬاﺏ اﻟﻘﺒﺮ ﻭﻻ ﺳﺆاﻝ ﻣﻨﻜﺮ ﻭﻧﻜﻴﺮ ﻭﻗﺎﻝ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﻤﺼﺒﺎﺡ زیادہ اﻷﺻﺢ ﺃﻥ اﻷﻧﺒﻴﺎء ﻻ ﻳﺴﺄﻟﻮﻥ ﻭﺗﺴﺄﻝ ﺃﻃﻔﺎﻝ اﻟﻤﺴﻠﻤﻴﻦ ﻭﺗﻮﻗﻒ ﺃﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﺔ ﻓﻲ ﺳﺆاﻝ ﺃﻃﻔﺎﻝ اﻟﻤﺸﺮﻛﻴﻦ (الحاوی للفتاوي ١٦٦/٢) امام نسفی رحمة الله عليهم نے بحر الکلام میں فرمایا کہ انبیاء کرام علیهم السلام اور اطفال مومنین کے لیے نہ حساب ہے نہ عذاب وسوالات قبر صاحب مصباح نے کہا کہ صحیح ہے کہ انبیاء سے پوچھ نہ ہوگی نہ مسلمانوں کے بچوں سے اور امام ابو حنفیہ رحمة الله عليهم مشرکین کے بچوں کے بارے میں توقف کیا ہے
وقال فضل الرسول البدايوني رحمه الله والأصح أن الأنبياء لا يسألون، وقد ورد أن بعض صالحي الأمة كالشهداء والمرابطين يومًا وليلة في سبيل الله يأمن فتنة القبر. فالأنبياء عليهم السلام أولى بذلك. (المعتقد والمنتقد، ص ١٨٤) یعنی صحیح مذہب یہ کہ انبیاء علیہم السلام سے قبر میں پوچھ گچھ نہیں۔ حدیث نبوی ﷺ میں وارد ہوا ہے کہ بعض نیکوکار جیسے شہداء اور وہ لوگ جو الله کی راہ میں ایک دن اور رات سرحد کی حفاظت کرتے رہے انہیں قبر کے فتنے سے امن حاصل ہوگا تو انبیاء علیہم السلام اس بات کے زیادہ مستحق ہیں۔ والله تعالی أعلم بالصواب
كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ