Headlines
Loading...
انجانے میں مکروہ اوقات میں قضا نماز ادا کر لی تو؟

انجانے میں مکروہ اوقات میں قضا نماز ادا کر لی تو؟


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکتہ

(سوال) کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ اگر کسی نے انجانے میں مکروہ اوقات میں قضا نماز ادا کر لی ہو، تو کیا اسے دوبارہ پڑھنا لازم ہوگا؟

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکتہ 

(جواب) اوقاتِ مکروہہ میں فرض نماز ادا نہیں ہوتی سوائے اسی دن کی عصر کی نماز کے جو بعد غروب مکروہ وقت میں ادا کی گئی ہو لہذا اگر کسی نے ان اوقات میں قضا نماز پڑھی ہو تو یہ نماز نفل شمار ہوگی اور اُس پر لازم رہے گا کہ دوبارہ غیر مکروہ وقت میں اپنی قضا نماز پڑھے

غنیۃ المتملی میں ہے ثلثة یکرہ فیها الفرائض والتطوع فالکراھة في الفرض کالفوائت الصحة لوجوبها بسبب كاملو فلا تؤدى ناقصـة وكذا الواجبات الفائة كسجدة التلاوة وجبت بتلاوة في وقت غير مكروه وجنازة حضرت فيه والوتر لأنها وجبت كاملة فلا تؤدى ناقصة بالنقصان القوي (غنية المتملي ص ٢٣٦) تین اوقات ایسے ہیں جن میں فرائض اور نوافل مکروہ ہیں پس فرائض میں کراہت قضا نمازوں کی صحت کے منافی ہے کیونکہ وہ ایک مکمل سبب کی بنا پر واجب ہوئی ہیں لہٰذا انہیں ناقص طور پر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اور اسی طرح فوت شدہ واجبات کا بھی یہی حکم ہے جیسے وہ سجدۂ تلاوت جو غیر مکروہ وقت میں تلاوت کے سبب واجب ہوا ہو وہ جنازہ جو مکروہ وقت میں حاضر ہوا ہو اور وتر، کیونکہ وہ کامل طور پر واجب ہوئے تھے لہذا شدید نقص کے ساتھ ناقص طور پر ادا نہیں کیے جا سکتے

وقال الإمام العیني في البناية (٥٧/٢) ﻗﺎﻝ ﺗﺎﺝ اﻟﺸﺮﻳﻌﺔ ﺇﺫا ﺃﺭﻳﺪ ﻣﻨﻬﺎ اﻟﻔﺮﺽ ﺑﻬﺎ ﻧﻔﻲ اﻟﺠﻮاﺯ ﻣﻄﻠﻘﺎ ﻭﺇﻥ ﻳﺮاﺩ ﻏﻴﺮﻩ ﻓﻤﻌﻨﺎﻩ اﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻭاﻟﻜﺮاﻫﺔ ﻣﻄﻠﻖ ﻋﻠﻰ اﻟﺠﺎﺋﺰ ﻭﻋﻠﻰ ﻏﻴﺮﻩ ﻭﻳﺠﻮﺯ ﺇﻃﻼﻗﻬﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﻔﺮاﺋﺾ ﻭاﻟﻮاﺟﺒﺎﺕ اﻟﺘﻲ ﻻ ﺗﺠﻮﺯ ﻓﻲ اﻷﻭﻗﺎﺕ ﻭﻋﻠﻰ اﻟﻔﻌﻞ اﻟﺬﻱ ﻳﺠﻮﺯ ﻭﻗﺎﻝ اﻟﺴﺮﻭﺟﻲ ﻭاﻟﻤﺮاﺩ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﻻ ﻧﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﻔﻌﻞ ﻭﻟﻮ ﻓﻌﻞ ﻳﺠﻮﺯ ﻭﻗﺎﻝ ﺻﺎﺣﺐ اﻟﺪﺭاﻳﺔ ﻓﻔﻲ ﻗﻮﻟﻪ (ﻻ ﺗﺠﻮﺯ اﻟﺼﻼﺓ) ﺃﻱ ﻻ ﺗﺠﻮﺯ ﻓﻌﻠﻪ ﻭﻟﻮ ﺷﺮﻉ ﻳﻠﺰﻡ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺒﻴﻊ اﻟﻔﺎﺳﺪ ﻷﻥ اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻦ اﻷﻓﻌﺎﻝ اﻟﺸﺮﻋﻴﺔ ﺑﻌﺾ اﻟﻤﺸﺮﻭﻋﻴﺔ ﻭﻓﻲ اﻟﺰاﺩ ﺃﺭاﺩ ﺑﻪ ﻣﺎ ﺳﻮﻯ اﻟﻔﻌﻞ ﻗﻠﺖ ﻓﻌﻠﻰ ﻫﺬا اﻟﻤﺮاﺩ ﻣﻦ ﻗﻮﻟﻪ ﻻ ﺗﺠﻮﺯ اﻟﺼﻼﺓ ﻧﻮﻉ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻭﻫﻮ اﻟﻔﺮﺽ ﻭﻟﻴﺲ اﻟﻤﺮاﺩ ﺟﻨﺲ اﻟﺼﻼﺓ ﺣﺘﻰ ﻟﻮ ﺻﻠﻰ اﻟﻨﻮاﻓﻞ ﻓﻲ اﻷﻭﻗﺎﺕ اﻟﻤﻜﺮﻭﻫﺔ ﻳﺠﻮﺯ ﻷﻧﻪ ﺃﺩﻯ ﻛﻤﺎ ﻭﺟﺒﺖ ﻷﻥ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ ﺗﺠﺐ ﺑﺎﻟﺸﺮﻭﻉ ﻭﺷﺮﻭﻋﻪ ﺣﺼﻞ ﻓﻲ اﻷﻭﻗﺎﺕ اﻟﻤﻜﺮﻭﻫﺔ ﻭﻟﻬﺬا ﻗﺎﻝ اﻹﻣﺎﻡ اﻹﺳﺒﻴﺠﺎﺑﻲ ﻓﻲ ﺷﺮﺡ اﻟﻄﺤﺎﻭﻱ ﻭﻟﻮ ﺻﻠﻰ اﻟﺘﻄﻮﻉ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻷﻭﻗﺎﺕ اﻟﺜﻼﺙ ﻓﺈﻧﻪ ﻳﺠﻮﺯ ﻭﻳﻜﺮﻩ ﻭﻗﺎﻝ اﻟﻜﺮﺧﻲ ﻭﻳﺠﻮﺯ ﻭاﺟﺐ اﻟﺒﻨﺎء ﺇﺫا ﺗﻘﺪﻡ. ﻗﺎﻝ اﻹﺳﺒﻴﺠﺎﺑﻲ ﻓﺎﻷﻓﻀﻞ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﻄﻊ ﻭﻳﻘﻀﻴﻬﺎ ﻓﻲ اﻟﻮﻗﺖ اﻟﻤﺒﺎﺡ ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻻ ﺗﺠﻮﺯ اﻟﻔﺮاﺋﺾ ﻓﻲ ﻫﺬﻩ اﻷﻭﻗﺎﺕ ﻷﻧﻬﺎ ﻭﺟﺒﺖ ﻛﺎﻣﻠﺔ ﻓﻼ ﻳﺘﺄﺩﻯ ﺑﺎﻟﻨﺎﻗﺺ یعنی تاج الشریعہ نے فرمایا اگر اس سے فرض مراد لیا جائے تو اس کا مطلب مطلقاً جواز کی نفی ہے اور اگر کچھ اور مراد لیا جائے تو اس کا مطلب کراہت ہے اور کراہت کا اطلاق عام طور پر جائز اور غیر جائز دونوں پر ہوتا ہے لہذا اس کا اطلاق فرائض اور واجبات پر بھی کیا جا سکتا ہے جو ان اوقات میں جائز نہیں اور ایسے عمل پر بھی ہوسکتا ہے جو جائز ہو سروجی نے فرمایا ان کے قول جائز نہیں سے مراد یہ ہے کہ ایسا کرنا مناسب نہیں لیکن اگر کوئی کر لے تو ہو جائے گا صاحب درایہ نے فرمایا ان کے قول نماز جائز نہیں کا مطلب یہ ہے کہ اس کا کرنا جائز نہیں لیکن اگر کسی نے شروع کر دی تو اسے مکمل کرنا لازم ہوگا جیسے فاسد بیع میں ہوتا ہے کیونکہ شرعی افعال سے منع کرنا ان کی مشروعیت کے بعض پہلوؤں کو باقی رکھتا ہے الزاد میں کہا گیا اس سے مراد عمل کے سوا کچھ اور ہے

میں کہتا ہوں اس بنا پر قول نماز جائز نہیں سے ایک مخصوص نوع مراد ہے یعنی فرض نماز نہ کہ نماز کی تمام اقسام اس لیے اگر کوئی ان مکروہ اوقات میں نفل نماز پڑھ لے تو وہ جائز ہوگی کیونکہ اس نے اسے اسی طرح ادا کیا جیسے وہ واجب ہوئی تھی کیونکہ نفل نماز شروع کرنے سے واجب ہو جاتی ہے اور اس کا آغاز مکروہ وقت میں ہوا تھا۔ اسی لیے امام اسبیجابی نے شرح الطحاوی میں فرمایا اگر کوئی ان تین مکروہ اوقات میں نفل نماز ادا کرے تو وہ جائز ہوگی مگر مکروہ ہوگی کرخی نے فرمایا اگر پہلے سے نماز شروع کر دی ہو تو اسے مکمل کرنا واجب ہوگا اسبیجابی نے فرمایا افضل یہ ہے کہ نماز کو توڑ دے اور مباح وقت میں ادا کرے اور ان اوقات میں فرائض اس لیے جائز نہیں کیونکہ وہ مکمل طور پر واجب ہوتے ہیں اور انہیں ناقص طور پر ادا نہیں کیا جا سکتا والله تعالى أعلم

كتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ