مدرسہ کی چھت پر ٹاور لگانے کا حکم
سلام مسنون
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں کہ مدرسہ کی چھت پر پرائیویٹ ٹاور لگانا چاہتے ہیں اور ٹاور کے ذریعہ جو آمدنی ہوگی اسے مدرسے ہی میں صرف کیا جاے گا تو اب ایسی صورت میں ٹاور لگا سکتے ہیں مع حوالہ جلد جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتی: محمد شرافت حسین رضوی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب۔مدارس عموما چندہ کے روپیہ اور زکات وغیرہ کے روپیہ سے بعد حیلہ شرعی تعمیر ہوتے ہیں اور یہ روپیہ صدقہ نافلہ ہوتے ہیں جن کو اسی غرض میں صرف کرنا لازم ہوتا ہے جس کیلئے جمع کئے جائیں اور وہ اپنی غرض یعنی تعمیر مدرسہ میں صرف ہو چکے اور عمارت مدرسہ تعلیم و تعلم کیلئے ہوتی ہے پس اگر ٹاور لگانے سے عمارت مدرسہ کو نقصان نہ ہو و تعلیم و تعلم میں خلل نہ ہو اور منتظمین مدرسہ مصلحت دیکھیں تو اجرت پر ٹاور لگایا جا سکتا ہے البتہ معاہدہ میں کچھ ایسی شرطیں درج کر لیں جن کی بنیاد پر ٹاور والوں کو کبھی بھی دعوی ملک و مکان نہ رہ جاے مثلا پانچ دس سال کیلئے کرایہ پر دیں نیز میعاد ختم ہونے پر فورا ہٹانے کی شرط رکھیں پھر اگر اسے دوبارہ دینا چاہیں تو دوبارہ جدید معاہدہ مذکورہ شرائط کے ساتھ کریں
بہار شریعت میں بحوالہ ہندیہ ہے یوہیں مسجد کے نیچے کرایہ کی دکانیں بنائی گئیں یا اوپر مکان بنا یا گیاجن کی آمدنی مسجد میں صرف ہوگی تو حرج نہیں یا مسجد کے نیچے ضرورت مسجد کے لیے تہ خانہ بنایا کہ اُس میں پانی وغیرہ رکھا جائے گا یا مسجد کاسامان اُس میں رہے گا تو حرج نہیں (ح١٠،ص٥٥٨)
فتاوی مرکز تربیت افتا میں ہے اور اگر تعامل قدیم بھی نہ ہو بس یوں ہی لوگوں نے اپنی صوابدید کے مطابق مصالح مسجد کیلئے کچھ دکانیں تعمیر کر لیں تو اس آخری صورت میں یہ اجازت ہوگی کہ اس زمین کا کچھ حصہ اجارہ پر لے لیں جس کا کرایہ مسجد کو جاتا رہے اور معاہدہ میں کچھ ایسی شرطیں لکھیں جن کی بنا پر کبھی بھی اہل مدرسہ کو زمین پر دعویٰ ملک و مکان نہ رہ جاے مثلا دس یا بیس سال کیلئے کرایہ پر دیں اور ساتھ ہی میں میعاد ختم ہونے پر فورا واپسی کی شرط رکھیں۔اس طور پر مدرسہ چلانا جائز ہوگا اور اہل مدرسہ کو حکم ہوگا کہ میعاد مقررہ سے پہلے کسی دوسری زمین کا انتظام کر لیں جہاں وقت آتے ہی مدرسہ منتقل ہو جاے بغیر اس صورت کے استعمال میں لائیں گے تو تغییر وقف ہوگا جو جائز نہیں (ج٢،ص١٨٣)
واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ شان محمد مصباحی قادری ١ اگست ٢٠١٩
