چوری کا مال خریدنا اور استعمال کرنا کیسا ہے
السلام علیکم رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتےہیں علمائے کرام اس مسلہ کے بارے میں کہ چوری کا سامان خرید نا اور استعمال کرنا کیسا ہے برائے مہربانی مکمل طور پر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ؟
الســــاٸل محمد ریحان رضا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
: جب معلوم ہو کہ یہ چوری کا سامان ہے تو اسے خرید نا حرام ہے - قدیم فتاویٰ رضویہ شریف میں ہے چوری کا مال دانستہ خرید نا حرام ہے بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلاً کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کولاے اور اپنی ملک بتاے اس کے خریدنے کی اجازت نہیں اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جاءزہے پھر اگر ثابت ہو جائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کا استعمال حرام ہے بلکہ مالک کو دیاجائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں کو اور انکا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو - (ج ، 7 ، ص 38 )
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ عبد السّتار رضوی ارشدالعلو عالم بازار کلکتہ
١٠،جمادی الآخر ١٤٤١ھ
اســـلامی مـــعلــومـات گـــــروپ
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ