Headlines
Loading...
ماں کے پیر دبانا شرعاً کیسا ہے

ماں کے پیر دبانا شرعاً کیسا ہے


                السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ آپ بخیر ہونگے میرا ایک سوال ہے کہ ماں کے پیر دبانا کیسا ہے برائے مہربانی مکمل طور پر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی

                   سائل محمد حبیب عالم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
             وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

              الجـــــــواب بعون الملکـــــ الوھاب

نابالغ بچوں سے دبوانے میں حرج نہیں البتہ بالغ لڑکاہو اور دونوں میں سے کسی کو شَہوت نہ ہو تو بالکل اجازت بلکہ اسلامی بھائی کیلئے اس میں دونوں جہانوں کی سعادت ہے منقول ہے جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ( یعنی دروازے ) کو بوسہ دیا (درالمختار ، ج ۹، ص ۶۰۶ ) صدر الشریعہ حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمہ تحریر فرماتے ہیں محارِم کے جن اَعضا کی طرف نظر کرسکتا ہے ان کوچُھو بھی سکتا ہے جب کہ دونوں میں سے کسی کوشَہوت کا اندیشہ نہ ہو ۔ مرد اپنی والِدہ کے پاؤں دبا سکتا ہے مگر ران اُس وقت دبا سکتا ہے جب کپڑے سے چُھپی ہوئی ہو، یعنی (دبا سکتا ہے مگر) کپڑے کے اوپرسے اوربِغیر حائِل چُھونا جائز نہیں(بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص ۸۸) اور اگر کپڑہ نہ ہو تو دبانا یعنی ماں کے جسم کو چھونا حرام ہے سرکار اعلی مجدد اعظم امام احمد رضا خان علیہ الرحمتہ والرضوان سے پوچھا گیا کہ دولھے کو ابٹن لگانا اور اس موقع پر گڑ تقسیم کرنا کیسا ہے تو جواب میں ارشاد فرمایاکہ ابٹن ملنا جائزہے اور کسی خوشی پر گڑ کی تقسیم اسراف نہیں اور دولھا کی عمر نو دس سال کی ہو تو اجنبی عورتوں کا اس کے بدن میں ابٹن ملنا بھی گناہ وممنوع نہیں۔ ہاں بالغ کے بدن میں نامحرم عورتوں کا ملنا ناجائز ہے اور بدن کو ہاتھ تو ماں بھی نہیں لگاسکتی یہ حرام اور سخت حرام ہے(فتاوی رضویہ جلد ٢٢/ص ٢٤٥.مترجم) 

                واللہ اعلم بـاالـــــــصـــــــــواب

کتبہ العبد ناچیز محمد شفیق رضا رضوی خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشن پور الھند

0 Comments:

براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ