نماز فجر میں سلام پھیرتے ہی وقت ختم ہو گیا تو کیا حکم ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فجر کی نماز کا سلام پھیر رہے تھے صرف السلام ۔۔ہی کہ پائے تھے کہ وقت ختم ہو گیا تو کیا نماز ادا ہو گئی یا قضا پڑھنی ہوگی؟؟؟؟
محمد نور عالم رضوی بہرامپور یوپی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسئولہ میں نماز ہوگئی یعنی پہلے سلام کا السلام کہتے ہی سورج کی کرن چمکی تو نماز بالاتفاق ہوگئی مگر یہ کہ اس پر سجدہ سہو نہ ہو اور اگر بقدر التحیات بیٹھ چکا لیکن سلام نہ پھیرا تھا اور سورج نکل آیا تو ہمارے امام اعظم کے نزدیک نماز نہ ہوئی یعنی یہ دو رکعتیں نفل ہوگئیں اور فرض ادا نہ ہوا؛ حضور اعلی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛ نمازِ فجر میں اگر قعدہ سے پہلے آفتاب نکل آیا یعنی ہنوز اتنی دیر جس میں التحیات پڑھ لی جائے نہ بیٹھنے پایا کہ سورج کی کرن چمکی تو بالاتفاق جاتی رہی اور اگر تحریمہ نماز سے باہر آنے کے بعد نکلا تو بالاتفاق ہوگئی مثلاً جب تک پہلی بار لفظ السلام کہا تھا سورج نہ نکلا تھا السلام کہتے ہی فوراً چمک آیا کہ ”علیکم ورحمة الله“ سورج نکلنے میں کہا تو نماز صحیح ہوگئی کہ فقط السلام کہنا تحریمہ نماز سے باہر کردیتا ہے إلا من علیه سهو بشرط أن یاتی بالسجود (مگر جس پر سجدہ سہو ہو، بشرطیکہ سجدہ کرے) اور اگر طلوعِ شمس دونوں امر کے بیچ میں ہوا یعنی قعدہ بقدر تشہد کرچکا اور ہنوز تحریمہ نماز میں تھا کہ آفتاب طالع ہُوا تو ہمارے امام اعظم رضی الله تعالى عنه کے نزدیک جاتی رہی یعنی یہ فرض نفل ہوکر رہ گئے فرضوں کی قضا ذمّہ پر رہی فی الدرالمختار ولووجد المنافی بلاصنعہ قبل القعود بطلت اتفاقا، ولوبعدہ بطلت عندہ، کطلوع الشمس فی الفجرولاتنقلب الصلاۃ نفلا الافہما اذاطلعت اوالخ اھ ملتقطا وفی شامی عن الرحمتی عن التجنیس الامام اذافرغ من صلاتہ، فلما قال السلام، جاء رجل واقتدی بہ قبل ان یقول علیکم، لایصیر داخلا فی صلاتہ، لان ھذا سلام؛ الاتری انہ لواراد ان یسلم علی احد فی صلاتہ ساھیا فقال: السلام، ثم علم فسکت، تفسد صلاتہ درمختار میں ہے: ایسا منافیِ نماز کہ جس میں نمازیعمل کو دخل نہ ہو، اگر قعدے سے پہلے پایا جائے تو نماز بالاتفاق باطل ہوجائے گی اور اگر قعدے سے بعد پایا جائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک باطل ہوجائے گی، مثلاً فجر کی نماز کے دوران سورج کا طلوع ہوجانا اور یہ نماز نفل نہیں بنتی، ہاں اگر طلوع ہو... الخ اور شامی میں رحمتی سے، اس نے تجنیس سے نقل کیا ہے کہ امام جب نماز سے فارغ ہُوا اور کہا السلام تو ایک شخص آیا اورعلیکم کہنے سے پہلے اقتداء کرلی تو وہ اس نماز میں داخل شمار نہیں کیا جائے گا کیونکہ صرف السلام کہنا بھی سلام ہے، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی بھُول کر نماز میں کسی کو سلام دینا چاہے اور کہے السلام پھر اسے یاد آجائے (کہ میں نماز میں ہوں) اور چُپ ہوجائے تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے (فتاوی رضویہ، جلد 5 صفحہ 314/ رضا فاونڈیشن لاہور )
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ محمد معصوم رضا نوریؔ عفی عنہ ۲۹/ ذی القعدہ ۱۴۴۱ہجری ۲۱/ جولائی ۲۰۲۰عیسوی بروز منگل
السلام علیکم میں گروپ میں شامل ہونا چہتا ہوں کس طرح ہونا ہے رہنمائی فرمائیں مہربانی ہوگی
جواب دیںحذف کریںفی الدرالمختار ولووجد المنافی بلاصنعہ قبل القعود بطلت اتفاقا، ولوبعدہ بطلت عندہ، کطلوع الشمس فی الفجرولاتنقلب الصلاۃ نفلا الافہما اذاطلعت اوالخ اھ ملتقطا وفی شامی عن الرحمتی عن التجنیس الامام اذافرغ من صلاتہ، فلما قال السلام، جاء رجل واقتدی بہ قبل ان یقول علیکم، لایصیر داخلا فی صلاتہ، لان ھذا سلام؛ الاتری انہ لواراد ان یسلم علی احد فی صلاتہ ساھیا فقال: السلام، ثم علم فسکت، تفسد صلاتہ
جواب دیںحذف کریںجلد/صفحہ بتائیں