سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین کہ زید اپنی ساس سے نکاح کرکے رہ رہا ہے اور بکر جو زید کا دوست ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ نکاح درست ہے بکر یہ بھی کہتا ہے کہ کچھ عالم سے دریافت بھی کیا ہوں وہ عالم جائز بتائے ہیں تو عرض یہ کہ کیا اپنی ساس یعنی بیوی کی ماں سے نکاح جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز نہیں تو زید اور بکر پر کیا حکم لگے گا اور ان عالم پر جس نے جائز بتایا ان پر کیا حکم لگے گا
قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل :- محمد شمشیر رضا قادری رضوی بنارس
الجواب اللھم ہدایۃ الحق والصواب
بیوی کی ماں یعنی ساس سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے کیونکہ وہ محرمات میں سے ہے
قال اللہ تعالیٰ :
وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ ، اور تمہاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام کردی گئیں ہیں ،
(النساء ۲۳)
جب ساس سے نکاح حرام ہے توزید کو چاہیے کہ فوراً اپنی ساس سے جدا ہو جائے اور اسے خود سے جدا کردے اور دونوں توبہ و استغفار کریں ،
بکر غلط مسئلہ بتانے کی وجہ سے سخت گنہگار ہوا وہ بھی توبہ کرے ، اور آئندہ بغیر علم کے غلط مسئلہ نہ بتانے کا عہد کرے ،
بکر کا یہ کہنا کہ کچھ عالموں نے جائز بتایا ہے تو ہوسکتا ہے بکر جھوٹ بول رہا ہو،
اور اگر واقعی کسی عالم نے جائز بتایا ہے تو کسی عالم کے بتانے سے ساس سے نکاح جائز تھوڑی ہوجائے گا چاہے بیوی کو طلاق دے دیا ہو یا بیوی وفات پا چکی ہوں ساس سے بہر صورت نکاح حرام ہے،
حدیث شریف میں ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
من افتی بغیر علم لعنته ملئکة السماء والارض رواہ ابن عساکر عن امیر المومنین علی کرم الله وجھه
جو بغیر علم کے حکم شرعی بتائے اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت کریں
اس حدیث کو ابن عساکر نے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت کیا)
(کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن علی کرم اللہ وجہہ حدیث ۲۹۰۱۸)
موسسہ رسالہ بیروت ۱۹۳/۱۰
فتاویٰ رضویہ جلد ۱۰ صفحہ ۳۱۴
رضا فاؤنڈیشن لاہور
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبـــــــہ محــمد معصـوم رضا نوریؔ عفی عنہ
۲٦ ذی الحجہ ۲٤٤١ ھجری
ماشاءالله بہت اچّھی معلومات ہو جاتی ہے اس کے ذریعہ
جواب دیںحذف کریں