سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گود لیا ہوا بچہ محرم ہوگا یا غیر محرم برائے مہربانی مکمل طور پر جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی فقط والسلام
المستفی ناچیز قاری محمد دانش رضا بلرامپور یوپی
جواب
بچہ یا بچی گود میں لینا جائز ہے لیکن جب وہ ا س عمر تک پہنچ جائیں جس میں ان پر نامحرم مرد یا عورت سے پردہ کرنا لازم ہو جاتا ہے تو اس وقت بچے پر پالنے والی عورت سے اور بچی پر پالنے والے مرد سے پردہ کرنا بھی لازم ہوگا کیونکہ وہ اس بچے کے حقیقی یا رضاعی ماں باپ نہیں اِس لئے وہ اُ س بچے اوربچی کے حق میں محرم نہیں ،لہٰذا اگر بچہ گود میں لیا جائےتو عورت اسے اپنا یا اپنی بہن کادودھ پلا دے اور بچی گود میں لی جائے تو مرد اپنی کسی محرم عورت کا دودھ اسے پلوا دے، اس صورت میں ان کے درمیان رضاعی رشتہ قائم ہوجائے گا اور محرم ہو جانے کی وجہ سے پردے کی وہ پابندیاں نہ رہیں گی جو نامحرم سے پردہ کرنے کی ہیں ،البتہ یہاں مزید دو باتیں ذہن نشین ر ہیں ،
پہلی یہ کہ دودھ بچے کی عمر دوسال ہونے سے پہلے پلایا جائے اور اگردو سال سے لے کر ڈھائی سال کے درمیان دود ھ پلایا تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی لیکن اس عمر میں دودھ پلانا ناجائز ہے اورڈھائی سال عمر ہو جانے کے بعد پلایا تو رضاعت ثابت نہ ہو گی
دوسری یہ کہ عورت نے بچے یا بچی کو اپنی بہن کا دودھ پلوایا تووہ اس کی رضاعی خالہ تو بن جائے گی لیکن اس کا شوہر بچی کا محرم نہ بنے گا ،لہٰذا بہتر صورت وہ ہے جو اوپر ذکر کی کہ بچے کو عورت کی محرم رشتہ دار کا دودھ پلوا لیا جائے اور بچی کو شوہر کی محرم رشتہ دار کا تاکہ پرورش کرنے والے پردے کے مسائل میں مشکلات کا شکار نہ ہوں
(حوالہ صراط الجنان جلد 07 پارہ 19/21)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ العبد خاکسار ناچیز محمد شفیق رضا رضوی
خطیب و امام سنّی مسجد حضرت منصور شاہ رحمت اللہ علیہ بس اسٹاپ کشنپور الھند
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ