سوال
علماء کرام کی بارگاہ میں سوال یہ ہے کہ مدرسے کا پیسہ خرچ کرنا یعنی جو صدر ہے وہ خود کھاتا ہے اور گھر میں بھی لگاتا ہے اس کے بارے میں ہے جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی کرم نوازش
المستفی محمد خالد حسین نیپال
جواب
مدرسہ یا مسجد کا پیسہ یا کوئی بھی چیز اپنے گھر لانا یا کسی ذاتی کام میں استعمال کرنا خواہ عوام ہو صدر یا امام یا مؤذن حرام و گناہ ہے
فتاویٰ ہندیہ میں ہے
متولي المسجد ليس له أن يحمل سراج المسجد إلي بيته
(ج ۲ /ص ٤٦٢ مطبوعہ بولاق مصر)
اور فتاویٰ رضویہ شریف میں
اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے ۔۔استعمال مذکور حرام ہے چندہ دہندہ کرے یا کوئی مال وقف خود واقف کو حرام ہے کہ اپنے مصرف میں لائے
ج ٦ صفحہ ٤۵٦ رضا اکیڈمی ممبئی
(ایسا ہی فتاوی مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۱۷۷ میں ہے)
صدر کو چاہیے کہ مسجد یا مدرسہ کا پیسہ کھا کر حرام خوری نہ کرے اپنے اس افعال قبیحہ سے توبہ کرے اور جتنا پیسہ کھا یا ہے واپس کرے ، اگر وہ ایسا نہیں کرتا ہے تو اسے صدر کے عہدہ سے معزول کردیا جائے -
ہاں اگر کسی کے ساتھ کوئی حادثہ ہوجائے خواہ عوام ہوں یااراکین اور قرض کہیں سے ملنے کی.امید نہ ہو اور مسجد یا مدرسہ میں رقم ہوجو اس وقت حاجت سے زائد ہوتو بطور قرض استعمال میں لاسکتے ہیں
حوالہ دوم
جیساکہ بہارشریعت احکام مسجد کے بیان میں ہے.
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ فقیر محمد معصوم رضا نوریؔ ارشدی عفی عنہ
٦ جمادی الاول ۱۴۴۳ہجری
بروز شنبہ ۲۰۲۱عیسوی
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ