سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہ بات جو مشہور ہے کہ جو شخص جمعہ یا رمضان کے ایام میں انتقال کرتا ہے وہ عذاب قبر اور سوال و جواب سے محفوظ رہتا ہے اس کی کیا حقیقت ہے رہنمائی فرمائیں
المستفی عبد اللہ
جواب
جس کا انتقال ماہ رمضان المبارک یا جمعہ کے دن یا جمعہ کی شب میں ہو تو اس سے سوال قبر نہ ہوگا اور وہ عذاب قبر سے محفوظ رہے گا۔ اور شان کریمی کا تقاضا یہ ہے کہ جب ایک چیز کو معاف کردے تو دوبارہ اس پر مواخذہ نہ کرے
حدیث شریف میں ہے
عن جابر بن عبد الله رضی الله تعالیٰ عنہما قال: قال رسول الله صلی الله تعالیٰ علیه وسلم : مَنْ مَاتَ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ أوْ یَوْمَ الْجُمُعَةِ اُجِیْزَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَجَآئَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَ عَلَیْه طَابِعُ الشُّہْدَآئِ
(جدالممتار ج۱ /ص۴۰۸)
درمختار میں ہے
ومن مات فیه او فی لیلته امن من عذاب القبر ولا تسجر فیه جہنم۔ اھ
( ج ۳ ص ۴۴ باب الجمعہ)
شرح الصدور میں ہے
جس کو رَمضان کے وَقت موت آئی وہ جنت میں داخل ہوگا۔ کہ ماہِ رَمضان میں مردوں سے عذابِ قبر اٹھا لیا جاتا ہے
(شَرحُ الصُّدُور ص۱۸۷)
اور اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں
شب جمعہ اور رمضان مبارک میں ہر روز کے واسطے یہ حکم ہے کہ جو مسلمان ان میں مرے گا سوال نکیرینِ وعذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔ وﷲ اکرم ان یعفو من شیئ ثم یعود فیه
ﷲ اس سے زیادہ کریم ہے کہ ایک شے کو معاف فرما کر پھر اس پر مواخذہ کرے
(ج ۹ ص ۶۵۸ رضا فائونڈیشن لاہور)
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ فقیر محمد اشفاق عطاری
متعلم جامعتہ المدینہ فیضان عطار نیپال گنج نیپال۱۲ رمضان المبارک ۱۴۴۲ ہجری،، ۲۵ اپریل ۲۰۲۱ عیسوی بروز اتوار
ماشاءاللہ۔ زبردست
جواب دیںحذف کریں