(مسئلہ) کیا حضور ﷺ کے موۓ مبارک کو عطر سے غسل دینا جائز ہے؟ اور اگر جائز ہے تو اس کا طریقہ کیا ہے؟
سائل: حسین المصباحی
الجواب رسول کریم ﷺ کے موئے مبارک کے گرد ونواح کو معطر رکھنے اور اس لئے بھی کہ اس کی زیارت کرنے والے لوگ خوشبو سے مستفید ہوں گے، موئے مبارک کو شفاف، پاکیزہ اور غیر کیمیائی عطر یا پانی میں ڈوبے رکھنا جائز بلکہ مستحسن ہے. اور اسے غیر شفاف عطر سے غسل دینا یعنی ڈبو کر نکال لینا بھی جائز ہے. پھر اس عطر کو اپنے چہرے یا سینے پر لگاتا رہے یا زیارت کرنے والوں کے سروں پر لگائے. ایک قابل تحسین عمل ہے
عطر کی کیمیائی ملاوٹ سے موئے مبارکہ پر اثر نہیں پڑتا پھر بھی یہ جائز نہیں کہ کیمیائی عطر میں رکھا جائے یا غسل دیا جائے. اور یہ کہ لوگ غسل بعد عطر سے مستفیض نہ ہوں سکیں گے. غسل دینے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ عطر میں ڈوبو کر بغیر پونچھے محفوظ جگہ پر خاص شیشے میں جو اس کے لیے بنایا گیا رکھ دے والله اعلم ورسوله اعلم
صحیح مسلم شریف میں ہے
انها أخرجت إلي جبة طيالسة کسروانية لها لبنة ديباج وفرجيها مکفوفين بالديباج وقالت هذه جبة رسول الله صلی الله عليه وسلم کانت عند عائشة فلما قبضت قبضتها وکان النبي صلی الله عليه وسلم يلبسها فنحن نغسلها للمرضی يستشفی بها. (صحیح مسلم، ١٠ - (٢٠٦٩))
یعنی أسماء بنت ابوبکر رضی الله تعالى عنها نے ایک اُونی جبہ کسروانی ساخت نکالا، اس کی پلیٹ ریشمین تھی اور دونوں چاکوں پر ریشم کا کام تھا اور کہا: یہ رسول الله ﷺ کا جبہ ہے ام المومنین صدیقہ کے پاس تھا ان کے انتقال کے بعد میں نے لے لیا نبی ﷺ اسے پہنا کرتے تھے تو ہم اسے دھو دھو کر مریضوں کو پلاتے اور اس سے شفا چاہتے ہیں
ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، قال: رأيت أبي آخذا شعرة من شعر النبي ﷺ فيضعها على فيه يقبلها، وأحسب أني رأيته يضعها على عينيه، ويغمسها في الماء، ثم يشربه، ثم يستشفي بها. (حلیة الاولیاء، ١٨٣/٩)
عبدالله بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل کو دیکھا ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے بالوں میں سے ایک مبارک بال نکالتے اپنے ہونٹوں سے بوسہ دیتے اور کبھی آنکھوں سے لگاتے اور وہ موئے مبارک کو پانی میں ڈال کر اس کا غسالہ پیتے اور اس سے شفا حاصل کرتے تھے
عن عثمان بن عبد الله بن موهب قال أرسلني أهلي إلی أم سلمة زوج النبي ﷺ بقدح من مائ وقبض إسرائيل ثلاث أصابع من قصة فيه شعر من شعر النبي ﷺ وکان إذا أصاب الإنسان عين أو شيئ بعث إليها مخضبه فاطلعت في الجلجل فرأيت شعرات حمرا. (صحیح البخاری، م: ٥٨٩٦؛ تاریخ المدینة لابن شبة، ص: ٦١٨)
عثمان بن عبدالله بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے ام سلمہ رضی الله تعالى عنها کے پاس ایک پیالہ دے کر بھیجا، اسرائیل نے اس سے تین چلو پانی لیا، جس میں نبی ﷺ کے موئے مبارک تھے، جب کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی ہو وہ ام سلمہ کے پاس برتن بھیج دیتا، عثمان کا بیان ہے کہ میں نے اس میں جھانک کر دیکھا تو مجھے چند سرخ بال نظر آئے
عن ابن سيرين: قلت لعبيدة: عندنا من شعر النبي ﷺ أصبناه من قبل أنس أو من قبل أهل أنس، قال: لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلى من الدنيا وما فيها. (صحیح البخاری، م: ١٧٠)
ابن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدہ سے کہا کہ ہمارے پاس نبی ﷺ کے کچھ موئے مبارک ہیں، ہم نے انہیں انس رضی الله تعالى عنه کے پاس سے یا (یہ کہا کہ) انس کے گھر والوں کے پاس سے پایا ہے، عبیدہ رحمة الله تعالى علیه نے کہا اگر ان بالوں میں سے ایک بال بھی مجھے مل جائے، تو یقینا تمام دنیاوی کائنات سے زیادہ محبوب ہوگا
کتبه ندیم ابن علیم المصبور العینی گونڈی، ممبئی ٣٠/ صفر المظفر ١٤٤٠
0 Comments:
براۓ مہربانی کمینٹ سیکشن میں بحث و مباحثہ نہ کریں، پوسٹ میں کچھ کمی نظر آۓ تو اہل علم حضرات مطلع کریں جزاک اللہ